آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے
کی جائے تو پھر اس کی شکایت نہیں کی جائے
---
اس معرکۂ عشق میں اے اہلِ محبت
آساں ہے عداوت پہ عداوت نہیں کی جائے
---
یہ دل کہ اُسی زُود فراموشی پہ مائل
اور ذہن بضد اس سے محبت نہیں کی جائے
---
ہم اہلِ سخن ہیں تو روایت کے مطابق
مصلوب کیا جائے رعایت نہیں کی جائے
---
یہ لوگ تماشا ہیں تو پھر ان سے جنوں میں
کوئی بھی بیاں دل کی حکایت نہیں کی جائے
---