جمعرات، 29 جون، 2017

کون روک سکتا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

کون روک سکتا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

کون روک سکتا ہے 

لاکھ ضبطِ خواہش کے

بے شمار دعوے ہوں

اُس کو بھُول جانے کے

بے پنہ اِرادے ہوں

اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا

فیصلہ سُنانے کو

کتنے لفظ سوچے ہوں

دل کو اس کی آہٹ پر

برَملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے

پھر وفا کے صحرا میں

اُس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی

خُوشبوؤں کو چھُونے کی

جستجو میں رہنے سے

رُوح تک پگھلنے سے

ننگے پاؤں چلنے سے

کون روک سکتا ہے

آنسوؤں کی بارش میں

چاہے دل کے ہاتھوں میں

ہجر کے مُسافر کے

پاؤں تک بھی چھُو آؤ

جِس کو لَوٹ جانا ہو

اس کو دُور جانے سے

راستہ بدلنے سے

دُور جا نکلنے سے

کون روک سکتا ہے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔