جمعرات، 30 اگست، 2018

پاؤں جمتے نہیں ہیں کائی پر ۔ ۔ ۔ راول حسین

راول حسین

پاؤں جمتے نہیں ہیں کائی پر

تف ہے ایسی کسی رسائی پر
۔ ۔ ۔
ایک بوسیدہ شہر ہاتھ لگا

اک نئے شہر کی کھدائی پر
۔ ۔ ۔
ایسے نازک سے واسطہ ہے جسے

چوڑیاں بوجھ ہیں کلائی پر
۔ ۔ ۔
گھر نہ تقسیم کر میرے بھائی

تیرا احسان ہو گا بھائی پر
۔ ۔ ۔
ایسے حالات ہیں کہ میرا باپ

معترض ہے مری پڑھائی پر
۔ ۔ ۔
دو گھڑی کا وصال بھاری ہے

زندگی بھر کی آشنائی پر
۔ ۔ ۔
کارخانے سے چھٹیاں لوں گا

گاؤں میں فصل کی کٹائی پر
۔ ۔ ۔

بدھ، 2 مئی، 2018

اسکی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ ۔ ۔ ۔ جون ایلیا


اسکی امید ناز کا ہم سے یہ مان تھا کہ آپ

عمر گزار دیجیۓ عمر گزار دی گئی
۔ ۔ ۔

منگل، 1 مئی، 2018

یعنی تیری نظر میں کوئی دوسرا بهی ہے ۔ ۔ ۔ جون ایلیا

جون ایلیاء اردو لفظ شاعری

اچها تیری نظر میں بہت منفرد ہوں میں

یعنی تیری نظر میں کوئی دوسرا بهی ہے
۔ ۔ ۔

اس سے ملے تو زعمِ تکلم کے باوجود ۔ ۔ ۔ احمد فراز

احمد فراز اردو لفظ شاعری

اس سے ملے تو زعمِ تکلم کے باوجود

جو سوچ کر گئے وہی اکثر نہیں کہا
۔ ۔ ۔

بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری ۔ ۔ ۔ امیر مینائی

امیر مینائی اردو لفظ شاعری

بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری

میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری
۔ ۔ ۔

جی میں‌ آئے تو یہ دیوار گرا بھی دینا ۔ ۔ ۔ محسن نقوی

محسن نقوی اردو لفظ شاعری

خط بھی لکھنا اسے مایوس بھی رہنا اس سے

جرم کرنا بھی مگر خود کو سزا بھی دینا

مجھ کو رسموں کا تکلف بھی گوارہ لیکن

جی میں‌ آئے تو یہ دیوار گرا بھی دینا
۔ ۔ ۔

جمعہ، 27 اپریل، 2018

افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے ۔ ۔ ۔ راحت اندوری

راحت اندوری اردو لفظ شاعری

افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے

لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
۔ ۔ ۔

اک دوسرے کو جان نہ پائے تمام عمر ۔ ۔ ۔ پروین شاکر

پروین شاکر اردو لفظ شاعری

اک دوسرے کو جان نہ پائے تمام عمر

ہم ہی عجیب تھے یا زمانہ عجیب تھا

کھونا تو خیر تھا ہی کسی دن اسے مگر

ایسے ہوا مزاج کا پانا عجیب تھا
۔ ۔ ۔

اب آئینے کے سِوا کوئی روبرو نہیں ہے ۔ ۔ ۔ عرفان ستار

عرفان ستار اردو لفظ شاعری

درون ِ دل ترا ماتم ہے، کُو بہ کُو نہیں ہے

ہمارے مسلک ِ غم میں یہ ہاؤ ہُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
یہ کس کو اپنے سے باہر تلاش کرتے ہیں

یہ کون ہیں کہ جنھیں اپنی جستجو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
میں جیت بھی جو گیا تو شکست ہوگی مجھے

مرا تو اپنے سِوا کوئی بھی عدو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نہیں ہے اب کوئی زندان تک برائے قیام

رسن بھی اب پئے آرائش ِ گُلو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تمام عمر کی ایذا دہی کے بعد کھُلا

میں جس کی یاد میں روتا رہا وہ تُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تُو چیز کیا ہے جو کی جائے تیری قدر میاں

کہ اب تو شہر میں غالب کی آبرو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نہیں چمن کے کسی گُل میں تجھ بدن سی مہک

شراب خانے میں تجھ لب سا اک سُبو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تُو خود پسند، تعلی پسند تیرا مزاج

میں خود شناس، مجھے عادت ِ غُلو نہیں ہے 
۔ ۔ ۔
ہے سرخ رنگ کی اک شے بغیرِجوش و خروش

تری رگوں میں جو بہتا ہے وہ لہُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
ہر ایک اچھا سخن ور ہے داد کا حق دار

کہ بددیانتی اہلِ سخن کی خُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
کہاں سے ڈھونڈ کے لاتا ہے اپنے حق میں دلیل

جناب ِ دل سا کوئی اور حیلہ جوُ نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نگار و جون و رسا سے ملی ہے داد ِ سخن٭

مجھے اب اِس سے زیادہ کی آرزو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
منافقت کا لبادہ اتار دے عرفان

اب آئینے کے سِوا کوئی روبرو نہیں ہے
۔ ۔ ۔

جس جگہ بولنا واجب ہو ، وہاں بولتا ہے ۔ ۔ ۔ ذوالفقار ذکی

ذولفقار ذکی اردو لفظ شاعری

کوئی اس شہر میں الفت سے کہاں بولتا ہے

اب تو ہر شخص ہی نفرت کی زباں بولتا ہے

بحث و تکرار میں رہتا ہے ذکی چپ لیکن

جس جگہ بولنا واجب ہو ، وہاں بولتا ہے
۔ ۔ ۔