پیر، 11 دسمبر، 2017

اے میرے سارے لوگو! ۔ ۔ احمد فراز

 Urdu Poetry Ahmad Faraz

اے میرے سارے لوگو!

اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو

اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی

اسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو

اس سے پہلے مری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی


پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں

پھر مرے شہر میں بارُود کی بُو پھیلی ہے

پھر سے "تُو کون ہے میں کون ہوں" آپس میں سوال

پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے


مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے

پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا

آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے

میرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا

پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا


پھر ہوئیں عام وہی اہلِ ریا کی باتیں

نعرۂ حُبِّ وطن مالِ تجارت کی طرح

جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں


اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی

صبحِ وحشت کی طرح شامِ غریباں کی طرح

اس سے پہلے بھی تو پیمانِ وفا ٹوٹے تھے

شیشۂ دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح


پھر کہاں ہیں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دیے

پھر کہاں شبنمیں چہروں پہ رفاقت کی ردا

صندلیں پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گئی

مرمریں ہاتھوں پہ جل بُجھ گیا انگارِ حنا


دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا

شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا

مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے

جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر

اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم

نوکِ دشنہ سے کھچی تھی مری دھرتی پہ لکیر


آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا

اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو

اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی

میرے دلگیر مرے درد کے مارے لوگو

کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے


خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو
- - -

منگل، 28 نومبر، 2017

یہی ھنگامہء سود و زیاں تھا ۔ ۔ احمد ندیم قاسمی

Ahmad Nadeem Qasmi Urdulafz Poetry

یہی ھنگامہء سود و زیاں تھا

یہی بے رنگ اور بے رَس جہاں تھا

یہی میں تھا، یہی تُم تھے، لیکن

نہ جانے اُن دنوں یہ دل کہاں تھا
۔ ۔ ۔

پیر، 27 نومبر، 2017

پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہل شوق کا

آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
۔ ۔ ۔

پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے
۔ ۔ ۔

پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا ۔ ۔ مرزا غالب

 Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا

افسون انتظار تمنا کہیں جسے
۔ ۔ ۔

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں

پھر وہی زندگی ہماری ہے
۔ ۔ ۔

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
۔ ۔ ۔

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ

کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے
۔ ۔ ۔

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ

جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے
۔ ۔ ۔

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی

وہ اک نگہ کہ بہ ظاہر نگاہ سے کم ہے
۔ ۔ ۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
۔ ۔ ۔

بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ

ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پانو
۔ ۔ ۔

بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے

کہ نہ سمجھے وہ لذت دشنام
۔ ۔ ۔

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
۔ ۔ ۔

بہرا ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بہرا ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات

سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
۔ ۔ ۔

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
۔ ۔ ۔

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک

ہم کہیں گے حال دل اور آپ فرماویں گے کیا
۔ ۔ ۔ 

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
۔ ۔ ۔

اتوار، 26 نومبر، 2017

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
۔ ۔ ۔ 

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوے جاتا ہوں میں ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوے جاتا ہوں میں

عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لاویں گے کیا
۔ ۔ ۔

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم

الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
۔ ۔ ۔

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
۔ ۔ ۔

ان آبلوں سے پانو کے گھبرا گیا تھا میں ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

ان آبلوں سے پانو کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
۔ ۔ ۔

آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آج ہم اپنی پریشانیٔ خاطر ان سے

کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
۔ ۔ ۔

اللہ رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

اللہ رے ذوق دشت نوردی کہ بعد مرگ

ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پاؤں
۔ ۔ ۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
۔ ۔ ۔

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی
۔ ۔ ۔ 

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک
۔ ۔ ۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
۔ ۔ ۔

آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ

کوئی دن اور بھی جیے ہوتے
۔ ۔ ۔

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
۔ ۔ ۔

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
۔ ۔ ۔

تش دوزخ میں یہ گرمی کہاں ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں

سوز غم ہائے نہانی اور ہے
۔ ۔ ۔

اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

اپنا نہیں یہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں

اس در پہ نہیں بار تو کعبہ ہی کو ہو آئے
۔ ۔ ۔

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل ۔ ۔ مرزا غالب

 Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل

میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
۔ ۔ ۔

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا

ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
۔ ۔ ۔ 

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر ۔ ۔ مرزا غالب

 Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
۔ ۔ ۔

دھر وہ بد گمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

ادھر وہ بد گمانی ہے ادھر یہ ناتوانی ہے

نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے
۔ ۔ ۔

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
۔ ۔ ۔

اس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالبؔ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

اس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالبؔ

ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے
۔ ۔ ۔ 
مرزا غالب

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
۔ ۔ ۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
۔ ۔ ۔

واحسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

واحسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریص لذت آزار دیکھ کر
۔ ۔ ۔

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
۔ ۔ ۔

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
۔ ۔ ۔ 

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستا کوئی دن اور

تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
۔ ۔ ۔

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
۔ ۔ ۔

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

کعبہ کس منہ سے جاوگے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی
۔ ۔ ۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
۔ ۔ ۔

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ ۔ ۔ مرزا غالب

Mirza Assad Ullah Khan Ghalib

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ

دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا
۔ ۔ ۔