منگل، 31 اکتوبر، 2017

جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے ۔ ۔ امیر مینائی

Ameer Meenai Urdulafz Poetry

جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے

میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے
۔ ۔ ۔
تمہیں حور اے شیخ جی سوجھتی ہے

مجھے رشک حور اک پری سوجھتی ہے
۔ ۔ ۔
یہاں تو میری جان پر بن رہی ہے

تمہیں جانِ من دل لگی سوجھتی ہے
۔ ۔ ۔
جو کہتا ہوں ان سے کہ آنکھیں ملاؤ

وہ کہتے ہیں تم کو یہی سوجھتی ہے
۔ ۔ ۔
یہاں تو ہے آنکھوں میں اندھیر دنیا

وہاں ان کو سرمہ مسی سوجھتی ہے
۔ ۔ ۔
جو کی میں نے جوبن کی تعریف بولے

تمہیں اپنے مطلب کی ہی سوجھتی ہے
۔ ۔ ۔
امیر ایسے ویسے تو مضموں ہیں لاکھوں

نئی بات کوئی کبھی سوجھتی ہے
۔ ۔ ۔

وصل ہو جائے یہیں، حشر میں کیا رکھا ہے ۔ ۔ امیر مینائی

Ameer Meenai Urdulafz Poetry

وصل ہو جائے یہیں، حشر میں کیا رکھا ہے

آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے

پارسائی کا لہو اس میں بھرا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نکلے

میرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھیں

آپ تو سوتے ہیں، فتنوں کو جگا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
آدمی زاد ہیں دنیا کے حسیں ،لیکن امیر

یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے
۔ ۔ ۔

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے ۔ ۔ افتخار عارف

Iftikhar Arif Urdulafz Poetry

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے

آنکھیں بھی مری خواب ِ پریشاں بھی مرا ہے
۔ ۔ ۔
جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری

جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی مرا ہے
۔ ۔ ۔
جو ہاتھ اٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے

جو چاک ہوا ہے وہ گریباں بھی مرا ہے
۔ ۔ ۔
جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل

وہ قافلہ بے سر و ساماں بھی مرا ہے
۔ ۔ ۔
ویرانہ مقتل پہ حجاب آیا تو اس بار

خود چیخ پڑا میں کہ عنواں بھی مرا ہے
۔ ۔ ۔
وارفتگی صبح بشارت کو خبر کیا

اندیشہ صد شام ِ غریباں بھی مرا ہے
۔ ۔ ۔
میں وارث گل ہوں کہ نہیں ہوں مگر اے جان

خمیازہ توہین ِ بہاراں بھی مرا ہے
۔ ۔ ۔
مٹی کی گواہی سے بڑی دل کی گواہی

یوں ہو تو یہ زنجیر یہ زنداں بھی مرا ہے
۔ ۔ ۔

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم ۔ ۔ افتخار عارف

Iftikhar Arif Urdulafz Poetry

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

وہ طائر جو کبھی اپنے بال و پر آزمانا چاہتے تھے

ہواؤں کے خد و خال آزمانا چاہتے تھے

آشیانوں کی طرف جاتے ہوئے ڈرنے لگے

کون جانے کون سا صیاد کسی وضع کے جال آزمانا چاہتا ہو

کون سی شاخوں ہی کیسے گل کھلانا چاہتا ہو

شکاری اپنے باطن کی طرح اندھے شکاری

حرمتوں کے موسموں سے نابلد ہیں

اور نشانے مستند ہیں

جگمگاتی شاخوں کو بے آواز رکھنا چاہتے ہیں

ستم گاری کے سب در باز رکھنا چاہتے ہیں

خداوند تجھے سہمے ہوئے باغوں کی سوگند

صداؤں کے ثمر کی منتظر شاخوں کی قسم

اُڑانوں کے لئے پر تولنے والوں پر ایک سایہ تحفظ کی ضمانت دینے والے

کوئی موسم بشارت دینے والا
۔ ۔ ۔

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر ۔ ۔ افتخار عارف

Iftikhar Arif Urdulafz Poetry

ایک رخ

وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر

سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں

سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں

گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی

دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی

جلے ہوئے خیموں میں سہمی ہوئی روشنی

سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں

ایسے منظر کے بعد ایک سناٹا چھا جاتا ہے

یہ سناٹا طبل و علم کی دہشت کو کھا جاتا ہے

سناٹا فریاد کی لے ہے احتجاج کا لہجہ ہے

یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بہت پرانا قصہ ہے

ہر قصے میں صبر کے تیور ایک طرح کے ہوتے ہیں

وہ فرات کے ساحل پر ہوں ہا کسی اور کنارے پر

سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں 
۔ ۔ ۔

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے ۔ ۔ افتخار عارف

Iftikhar Arif Urdulafz Poetry

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
۔ ۔ ۔
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن

راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
۔ ۔ ۔
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ

اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
۔ ۔ ۔
دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب

جس کی ڈھالیں چمک رہیں تھیں وہی نشانہ ہے
۔ ۔ ۔
کاسہ شام میں سورج کا سر اور آواز ِ اذان

اور آواز اذان کہتی ہے فرض نبھانا ہے
۔ ۔ ۔
سب کہتے ہیں اور کوئی دن یہ ہنگامہ دہر

دل کہتا ہے ایک مسافر اور بھی آنا ہے
۔ ۔ ۔
ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر

سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے
۔ ۔ ۔

غیروں سے داد جور و جفا لی گئی تو کیا ۔ ۔ افتخار عارف

Iftikhar Arif Urdulafz Poetry

غیروں سے داد جور و جفا لی گئی تو کیا

گھر کو جلا کے خاک اڑا دی گئی تو کیا 
۔ ۔ ۔
غارت گریٔ شہر میں شامل ہے کون کون 

یہ بات اہل شہر پہ کھل بھی گئی تو کیا 
۔ ۔ ۔
اک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا 

اک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئی تو کیا 
۔ ۔ ۔
میثاق اعتبار میں تھی اک وفا کی شرط 

اک شرط ہی تو تھی جو اٹھا دی گئی تو کیا 
۔ ۔ ۔
قانون باغبانیٔ صحرا کی سر نوشت 

لکھی گئی تو کیا جو نہ لکھی گئی تو کیا 
۔ ۔ ۔
اس قحط و انہدام روایت کے عہد میں 

تالیف نسخہ ہائے وفا کی گئی تو کیا 
۔ ۔ ۔
جب میرؔ و میرزاؔ کے سخن رائیگاں گئے 

اک بے ہنر کی بات نہ سمجھی گئی تو کیا
۔ ۔ ۔

جمعرات، 26 اکتوبر، 2017

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا ۔ ۔ احمد ندیم قاسمی

Ahmad Nadeem Qasmi

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا

اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے

بدھ، 25 اکتوبر، 2017

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا ۔ ۔ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا

دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح

شادیِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب

پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
جب لگی آنکھ ، کراہا یہ کہ بد خواب کیا

نیند بھر کر دلِ بیمار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
دردِ سرِ شام سے اس زلف کے سودے میں رہا

صبح تک مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
رات بھر کیں دلِ بے تاب نے باتیں مجھ سے

رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
سیلِ گریہ سے مرے نیند اڑی مردم کی

فکرِ بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
باغِ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں

گرمیِ آتشِ گلزار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
سچ ہے غم خواریِ بیمار عذابِ جاں ہے

تا دمِ مرگ دلِ زار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔
تکیہ تک پہلو میں اس گُل نے نہ رکھا آتش

غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا
۔ ۔ ۔

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا ۔ ۔ حید علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
۔ ۔ ۔
کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے

بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا؟
۔ ۔ ۔
زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف

قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟
۔ ۔ ۔
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر

دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
۔ ۔ ۔
طبل و عَلم ہے پاس نہ اپنے ہے ملک و مال

ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
۔ ۔ ۔
صّیاد گُل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ

بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
۔ ۔ ۔
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے

آتِش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
۔ ۔ ۔

ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا ۔ ۔ حید علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا

کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
۔ ۔ ۔
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے

کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
۔ ۔ ۔
دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں

حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا
۔ ۔ ۔
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے

خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
۔ ۔ ۔
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل کے نو لغت

کونین، اک دو ورقہ ہے اپنی کتاب کا
۔ ۔ ۔
اے موجِ بے لحاظ، سمجھ کر مٹائیو

دریا بھی ہے اسیرِ طلسمِ حباب کا
۔ ۔ ۔
اک ترک شہسوار کی دیوانی روح ہے

زنجیر میں ہمارے ہو لوہا رکاب کا
۔ ۔ ۔
حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی

شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا
۔ ۔ ۔
اللہ رے ہمارا تکلّف، شبِ وصال

روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا
۔ ۔ ۔
مسجد سے مے کدے میں مجھے نشّہ لے گیا

موجِ شرابِ جادہ تھی، راہِ ثواب کا
۔ ۔ ۔
انصاف سے وہ زمزمہ میرا اگر سنے

دم بند ہووے طوطیِ حاضر جواب کا
۔ ۔ ۔
الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو

طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا
۔ ۔ ۔
معمور جو ہوا عرقِ رخ سے وہ ذقن

مضمون مل گیا مجھے چاہِ گلاب کا
۔ ۔ ۔
پاتا ہوں ناف کا کمرِ یار میں مقام

چشمہ مگر عدم میں ہے گوہر کی آب کا
۔ ۔ ۔
آتش شبِ فراق میں پوچھوں گا ماہ سے

یہ داغ ہے دیا ہوا کس آفتاب کا؟
۔ ۔ ۔

حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما‌ں رہ گیا ۔ ۔ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارما‌ں رہ گیا

دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا
۔ ۔ ۔
دوستی نبھتی نہیں ہرگز فرو مایہ کے ساتھ

روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا
۔ ۔ ۔
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ

ہر قدم پر ہے یقین ، یاں رہ گیا، واں رہ گیا
۔ ۔ ۔
کر کے آرایش، جو دیکھی اُس صنم نے اپنی شکل

بند آنکھیں ہو گئیں، آئینہ حیراں رہ گیا
۔ ۔ ۔
کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل

شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا
۔ ۔ ۔
شامِ ہجراں صبح بھی کر کے نہ دیکھا روزِ وصل

سانپ کو کچلا پر آتش ، گنج پنہاں رہ گیا
۔ ۔ ۔

فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا ۔ ۔ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا

خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
۔ ۔ ۔
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک

نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا
۔ ۔ ۔
لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
۔ ۔ ۔
بناوٹ کیفِ مے سے کھُل گئی اُس شوخ کی آتش

لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا
۔ ۔ ۔

طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا ۔ ۔ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا

یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا
۔ ۔ ۔
نہ بوریا بھی میسّر ہوا بچھانے کو

ہمیشہ خواب ہی دیکھا کیے چھپر کھٹ کا
۔ ۔ ۔
شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر

اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا
۔ ۔ ۔
پری سے چہرہ کو اپنے وہ نازنیں دکھلائے

حجاب دور ہو، ٹوٹے طلسم گھونگھٹ کا
۔ ۔ ۔
شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے

پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا
۔ ۔ ۔
چمن کی سیر میں سنبل سے پہلوانی کی

چڑھا کے پیچ پہ اُن گیسوؤں نے دے پٹکا
۔ ۔ ۔
کبھی تو ہو گا ہمارے بھی یار پہلو میں

کبھی تو قصد کرے گا زمانہ کروٹ کا
۔ ۔ ۔
بس اپنی مستی کو گردش ہے چشم ساقی کی

ہمارا پیٹ نہیں‌ہے شراب کا مٹکا
۔ ۔ ۔
نہ پھول، بیٹھ کے بالائے سرو، اے قمری

چڑھے جو بانس کے اوپر یہ کام ہے نٹ کا
۔ ۔ ۔
عجب نہیں ہے جو سودا ہو شعر گوئی سے

خراب کرتا ہے آتش زبان کا چٹکا
۔ ۔ ۔

آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست ۔ ۔ حید علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست

بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست
۔ ۔ ۔
حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا

نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست
۔ ۔ ۔
رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں

رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست
۔ ۔ ۔
جو پہنے اُس کو جامۂ عریانی ٹھیک ہو

اندام پر ہر اک کے ہے یہ پیرہن درست
۔ ۔ ۔
آرائشِ جمال کو مشاطہ چاہیئے

بے باغبان کے رہ نہیں سکتا چمن درست

آئینہ سے بنے گا رُخِ یار کا بناؤ
۔ ۔ ۔
شانے سے ہو گی زلفِ شکن در شکن درست

کم، شاعری بھی نسخۂ اکسیر سے، نہیں،

مستغنی ہو گیا جسے آیا یہ فن درست
۔ ۔ ۔
آتش! وہی بہار کا عالم ہے باغ میں

تا حال ہے دماغِ ہوائے چمن درست
۔ ۔ ۔

مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں ۔ ۔ حید علی آتش

 خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں

وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں
۔ ۔ ۔ 
نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے

انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں
۔ ۔ ۔
کسے نیند آتی ہے اے صنم، ترے طاقِ ابرو کی یاد میں

کبھی آشنائے تہِ بغل، سرِ مرغِ قبلہ نما نہیں
۔ ۔ ۔
عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیالِ دشمن و دوست میں

وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں، وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں
۔ ۔ ۔
یہ خلاف ہو گیا آسماں، یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی

کہیں گُل کھلے بھی تو بُو نہیں، کہیں حسن ہے تو وفا نہیں
۔ ۔ ۔
مرضِ جدائیِِ یار نے، یہ بگاڑ دی ہے ہماری خُو

کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں
۔ ۔ ۔
مجھے زعفران سے زرد تر غمِ ہجرِ یار نے کر دیا

نہیں ایسا کوئی زمانہ میں، مرے حال پر جو ہنسا نہیں
۔ ۔ ۔
مرے آگے اس کو فروغ ہو ، یہ مجال کیا ہے رقیب کی

یہ ہجومِ جلوۂ یار ہے ، کہ چراغِ خانہ کو جا نہیں
۔ ۔ ۔
چلیں گو کہ سینکڑوں آندھیاں ، جلیں گرچہ لاکھ گھر اے فلک

بھڑک اٹھے آتشِ طور پھر، کوئی اس طرح کی دوا نہیں
۔ ۔ ۔

تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات ۔ ۔ حیدر علی آتش

 خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

تا صبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات

نو چکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
۔ ۔ ۔
اللہ رے صبح عید کی اُس حور کی خوشی

شانہ تھا اور زلفِ معنبر تمام رات
۔ ۔ ۔
کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار

سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات
۔ ۔ ۔
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا

پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
۔ ۔ ۔
راحت کا ہوش ہے کسے آتش بغیر یار؟

بالیں ہیں خشت ، خاک ہے بستر تمام رات
۔ ۔ ۔

ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے ۔ ۔ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے

خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے

بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی

ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں

نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط

کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
طریقِ عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن

ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
جگہ ہے رحم کی یار ایک ٹھوکر اس کو بھی

شہیدِ ناز کا ترے مزار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسایش

عناں گسستۂ و بے اختیار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے

فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
نہ جائیں آپ ابھی دوپہر ہے گرمی کی

بہت سی گرد بہت سا غبار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ

ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
جنوں میں خاک اڑاتا ہے ساتھ ساتھ اپنے

شریکِ حال ہمارا غبار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
کوئی تو دوش سے بارِ سفر اتارے گا

ہزار رہزنِ امیدوار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے

خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
بہت سی ٹھوکریں کھلوائے گا یہ حسن اُن کا

بتوں کا عشق نہیں کوہسار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
پتا یہ کوچۂ قاتل کا سن رکھ اے قاصد

بجائے سنگِ نشاں اِک مزار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل

اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
چلا ہے تیر و کماں لے کے صید گاہ وہ تُرک

خوشا نصیب وہ جو جو شکار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش

گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔

منگل، 24 اکتوبر، 2017

تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا ۔ ۔ نوشی گیلانی

نوشی گیلانی اردو لفظ شاعری

تجھ کو تو خیر شہر کے لوگوں کا خوف تھا

اور مجھ کو اپنے گھر سے اجازت نہیں ملی

جب عمر کی نقدی ختم ہوئی ۔ ۔ ابن انشاء

ابن انشاء اردو لفظ شاعری

جب عمر کی نقدی ختم ہوئی

ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی

ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے

ہے کوئی جو ساہو کار بنے

ہے کوئی جو دیون ہار بنے

کچھ سال ،مہینے، دن لوگو

پر سود بیاج کے بن لوگو

ہاں ا پنی جاں کے خزانے سے 

ہاں عمر کے توشہ خانے سے

کیا کوئی بھی ساہو کار نہیں

کیا کوئی بھی دیون ہار نہیں

جب ناما دھر کا آیا کیوں 

سب نے سر کو جھکایا ہے

کچھ کام ہمیں نپٹانے ہیں

جنہیں جاننے والے جانے ہیں

کچھ پیار دلار کے دھندے ہیں

کچھ جگ کے دوسرے پھندے ہیں

ہم مانگتے نہیں ہزار برس

دس پانچ برس دو چار برس

ہاں ،سود بیاج بھی دے لیں گے

ہاں اور خراج بھی دے لیں گے

آسان بنے، دشوار بنے

پر کوئی تو دیون ہار بنے

تم کون ہو تمہارا نام کیا ہے

کچھ ہم سے تم کو کام کیا ہے

کیوں اس مجمع میں آئی ہو

کچھ مانگتی ہو ؟ کچھ لاتی ہو

یہ کاروبار کی باتیں ہیں

یہ نقد ادھار کی باتیں ہیں

ہم بیٹھے ہیں کشکول لیے

سب عمر کی نقدی ختم کیے

گر شعر کے رشتے آئی ہو

تب سمجھو جلد جدائی ہو

اب گیت گیاسنگیت گیا

ہاں شعر کا موسم بیت گیا

 اب پت جھڑ آئی پات گریں

کچھ صبح گریں، کچھ را ت گریں

یہا پنے یار پرانے ہیں

اک عمر سے ہم کو جانے ہیں

ان سب کے پاس ہے مال بہت

ہاں عمر کے ماہ و سال بہت

ان سب کو ہم نے بلایا ہے

اور جھولی کو پھیلایا ہے

تم جاؤ ان سے بات کریں

ہم تم سے نا ملاقات کریں

کیا پانچ برس ؟

کیا عمر اپنی کے پانچ برس ؟

تم جا ن کی تھیلی لائی ہو ؟

کیا پاگل ہو ؟ سو دائی ہو ؟

جب عمر کا آخر آتا ہے

ہر دن صدیاں بن جاتا ہے

جینے کی ہوس ہی نرالی ہے

ہے کون جو اس سے خالی ہے

کیا موت سے پہلے مرنا ہے

تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے

پھر تم ہو ہماری کون بھلا

ہاں تم سے ہمارا رشتہ ہے

کیاسود بیاج کا لالچ ہے ؟

کسی اور خراج کا لالچ ہے ؟

تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛

تم جا کر پوری عمر جیو

یہ پانچ برس، یہ چار برس

چھن جائیں تو لگیں ہزار برس

سب دوست گئے سب یار گئے

تھے جتنے ساہو کار ، گئے

بس ایک یہ ناری بیٹھی ہے

یہ کون ہے ؟ کیا ہے ؟ کیسی ہے ؟

ہاں عمر ہمیں درکار بھی ہے ؟

ہاں جینے سے ہمیں پیار بھی ہے

جب مانگیں جیون کی گھڑیاں 

گستاخ آنکھوں کت جا لڑیاں

ہم قرض تمہیں لوٹا دیں گے

کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں گے

جو ساعت و ماہ و سال نہیں

وہ گھڑیاں جن کو زوال نہیں

لو اپنے جی میں اتار لیا

لو ہم نے تم کو ادھار لیا
۔ ۔ ۔

پیر، 23 اکتوبر، 2017

ہے زباں بھی دل بھی آنکھیں بھی عقل بھی مگر ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

ہے زباں بھی دل بھی آنکھیں بھی عقل بھی مگر

مصلحت بینی انہیں اذنِ عمل دیتی نہیں

اہلِ دولت سے وفا کی آرزو ہے اک نگاہ

ان زمینوں میں محبت پھول پھل دیتی نہیں
۔ ۔ ۔

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو ۔ ۔ احسان دانش

 احسان دانش اردو لفظ شاعری

ہستی کا ہر نفَس ہے نیا دیکھ کر چلو

کس رُخ کی چل رہی ہے ہوا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
زندہ ہے دل تو اس میں محبت بھی چاہیے

آنکھیں جو ہیں تو راہِ وفا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
آذر کدے کی آنچ سے شہ پا کے یک بیک

صر صر بنی ہوئی ہے صبا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
امسال دیدنی ہے چمن میں جنوں کا رنگ

گُل چاک کر رہے ہیں قبا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
گُلچیں کے سدّ باب سے انکار ہے کسے

لیکن اصولِ نشو و نما دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
کچھ سرپھروں کو ذکرِ وفا بھی ہے ناگوار

یہ انحطاطِ مہر و وفا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
ہاں انفرادیت بھی بُری چیز تو نہیں

چلنا اگر ہے سب سے جدا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو ہر شے ہے بے نقاب

اے بندگانِ حرص و ہوا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
ذوقِ عبودیت ہو کہ گستاخیِ نگاہ

تخمینۂ جزا و سزا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
ناموسِ زندگی بھی بڑی شے ہے دوستو

دیکھو بلند و پست فضا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
یہ تو بجا کہ ذوقِ سفر ہے ثبوتِ زیست

اس دشت میں سموم و صبا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
عرفان و آگہی بھی عبادت سہی مگر

طرز و طریقِ اہلِ وفا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
اسبابِ ظاہری پہ بھی درکار ہے نظر

با وصف اعتمادِ خدا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
ممکن ہے روحِ سرو و سمن سے ہو ساز باز

کیا دے گئی گلوں کو صبا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
ہر کشمکش نہیں ہے امینِ سکونِ دل

ہر موت میں نہیں ہے بقا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
ہر لحظہ ہے پیمبرِ اندیشہ و عمل

کیا چاہتا ہے رنگِ فضا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔
یہ بھی روش نہ ہو رہِ مقصود کے خلاف

آئی ہے یہ کدھر سے صدا "دیکھ کر چلو"
۔ ۔ ۔
ہمدرد بن کے دشمنِ دانش ہوئے ہیں لوگ

یہ بھی ہے دوستی کی ادا دیکھ کر چلو
۔ ۔ ۔

ہمنشیں پوچھ نہ مجھ سے کہ محبت کیا ہے ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

ہمنشیں! پوچھ نہ مجھ سے کہ محبت کیا ہے

اشک آنکھوں میں ابل آتے ہیں اس نام کے ساتھ
۔ ۔ ۔
تجھ کو تشریحِ محبت کا پڑا ہے دورہ

پھر رہا ہے مرا سر گردشِ ایام کے ساتھ
۔ ۔ ۔
سن کہ نغموں میں ہے محلول یتیموں کی فغاں!

قہقہے گونج رہے ہیں یہاں کہرام کے ساتھ
۔ ۔ ۔
پرورش پاتی ہے دامانِ رفاقت میں ریا

اہلِ عرفاں کی بسر ہوتی ہے اصنام کے ساتھ
۔ ۔ ۔
کوہ و صحرا میں بہت خوار لئے پھرتی ہے

کامیابی کی تمنا دلِ ناکام کے ساتھ
۔ ۔ ۔
یاس آئینہ ء امید میں نقاشِ الم

پختہ کاری کا تعلق ہوسِ خام کے ساتھ
۔ ۔ ۔
سلسلہ تونگر کے شبستاں میں چراغانِ بہشت

وعدہ ء خلدِ بریں کشتۂ آلام کے ساتھ
۔ ۔ ۔

نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہو گا ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہو گا

حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہو گا
۔ ۔ ۔
نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر

نئی سحر بھی کجلا گئی تو کیا ہو گا
۔ ۔ ۔
نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے

میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہو گا
۔ ۔ ۔
غمِ حیات سے بے شک ہے خود کشی آسان

مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہو گا
۔ ۔ ۔
شبابِ لالہ و گل کو پکارنے والو!

خزاں سرشتِ بہار آ گئی تو کیا ہو گا
۔ ۔ ۔
یہ فکر کر کے اس آسودگی کے ڈھوک میں

تیری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہوگا
۔ ۔ ۔
خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر

جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہو گا
۔ ۔ ۔

وہ علم میں جس کے اول سے ہر رازِ نہانِ ہستی ہے ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

وُہ

وہ علم میں جس کے اول سے ہر رازِ نہانِ ہستی ہے

وہ جس کے اشاروں پر رقصاں عالم کی بلندی پستی ہے

وہ جس کی نظر کے تاروں سے وحشی کا گریباں سلتا ہے

وہ جس کے تجلی خانے سے خورشید کو جلوہ ملتا ہے

وہ جس کا وظیفہ کرتے ہیں کُہسار کے بیخود نظارے

وہ جس کی لگن میں تر رہتے ہیں اہلِ صفا کے رخسارے

وہ جس کی نگاہیں رہتی ہیں ہریالی کی رکھوالی پر

وہ جس کی ثنائیں ہوتی ہیں گلزار میں ڈالی ڈالی پر

وہ جس کی رحمت کے نغمے گاتی ہے ہوا برساتوں میں

وہ جس کی یاد ستاتی ہے سردی کی سُہانی راتوں میں

وہ دل میں جس کی الفت سے اک نور سا لہرا جاتا ہے

جب باغ کی لرزاں شاخوں میں مہتاب جبیں چمکاتا ہے

وہ نام سے جس کے، چشموں میں تمہیدِ ترنم ہوتی ہے

وہ جس کے شگوفہ زاروں میں تقلیدِ تبسم ہوتی ہے

وہ جس نے ہمیشہ روندا ہے اُمید کی رخشاں بستی کو

جو راہِ فنا پر لاتا ہے پابند قیودِ ہستی کو

وہ جس کی خموشی راتوں کو چھاتی ہے کشادہ گلیوں میں

وہ جس کے تبسم بستے ہیں گلزار کی کمسن کلیوں میں

وہ جس کو سارے عالم میں محبوب شبیہِ انساں ہے

لاریب اُسی کا بندہ ہوں احسان مرا یہ ایماں ہے
۔ ۔ ۔

سب کو ادراکِ زیاں گِر کے سنبھلنے سے ہُوا ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

سب کو ادراکِ زیاں گِر کے سنبھلنے سے ہُوا

مجھ کو احساس ترے در سے نکلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
کوئی زنجیر کا حلقہ نہیں دیتا جھنکار

حال زنداں کا یہ اک میرے نکلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
کوئی رازِ دل ِ کہسار نہ کھِلنے پایا!

روز اعلان تو چشموں کے اُبلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
یہ مری فکر کہ آنکھوں کی خطا کہتا ہوں

گرچہ زخمی مرا سر پاؤں پھسلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
میں کہ معلوم مجھے اپنی حقیقت نہ مقام

تُو کہ مقصود مرا روپ بدلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
گُدگُدایا مجھے سورج نے تو پلکیں جھپکیں

شور دریا میں مری برف پگھلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
لوگ اُن کو مرے حالات بتا دیتے ہیں

فائدہ خاک مجھے نام بدلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
ٹھوکریں لگتی ہیں ہمسایوں کو اس کُوچے سے

یہ اندھیرا تری قندیل نہ جلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
اپنا سر پھوڑ، زمانے کی تباہی پہ نہ رو

جو ہُوا خون کی تاثیر بدلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
ہے تری ذات سے مشتق مرے لوہے کا مزاج

میں تو کندن ہی تری آگ میں جلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
میرے قدموں سے تعارف نہیں کرتی راہیں

یہ خسارہ بھی مرے ساتھ نہ چلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
میں تھا ڈُوبا ہُوا دہکی ہُوئی تاریکی میں

میرا آغازِ سفر چاند نکلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔
آنا جانا بھی غنیمت ہے وہاں اے دانش

میں جو بیمار ہُوا گھر میں ٹہلنے سے ہُوا
۔ ۔ ۔

وعدہ نہ سہی یونہی چلے آؤ کسی دن ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

وعدہ نہ سہی یونہی چلے آؤ کسی دن

گیسو مرے دالان میں لہراؤ کسی دن
۔ ۔ ۔
سن سن کے حریفوں کے تراشے ہوئے الزام

معیارِ حریفاں پہ نہ آ جاؤ کسی دن
۔ ۔ ۔
یارو! مجھے منظور ، تغافل بھی جفا بھی

لیکن کوئی اس کو تو منا لاؤ کسی دن
۔ ۔ ۔
کیوں ہم کو سمجھتا ہے وہ دو قالب و یکجاں

خوش فہم زمانے کو تو سمجھاؤ کسی دن
۔ ۔ ۔
گتھی طلب و ترک کی کھلتی ہی رہے گی

اس عقدۂ ہستی کو تو سلجھاؤ کسی دن
۔ ۔ ۔
کچھ سوچ کے آپس کی شکایت کو بڑھاؤ

دنیا میں اکیلے ہی نہ رہ جاؤ کسی دن
۔ ۔ ۔
بیکار پڑے ہیں نگہِ شوق کے بجرے

اس بحر میں طوفان بھی لاؤ کسی دن
۔ ۔ ۔
ہیں جبکہ مہ و مہرِضیا خواہ تمہیں سے

لو میرے دئیے کی بھی تو اکساؤ کسی دن
۔ ۔ ۔
یہ خشک جزیرے کہیں پتھر ہی نہ بن جائیں

آنکھیں جو عطا کی ہیں نظر آؤ کسی دن
۔ ۔ ۔