جمعہ، 30 جون، 2017

آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے ۔ ۔ نوشی گیلانی

آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے ۔ ۔ نوشی گیلانی

آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے

کی جائے تو پھر اس کی شکایت نہیں کی جائے
---
اس معرکۂ عشق میں اے اہلِ محبت

آساں ہے عداوت پہ عداوت نہیں کی جائے
---
یہ دل کہ اُسی زُود فراموشی پہ مائل

اور ذہن بضد اس سے محبت نہیں کی جائے
---
ہم اہلِ سخن ہیں تو روایت کے مطابق

مصلوب کیا جائے رعایت نہیں کی جائے
---
یہ لوگ تماشا ہیں تو پھر ان سے جنوں میں

کوئی بھی بیاں دل کی حکایت نہیں کی جائے
---

مُجھے موت دے کہ حیات دے ۔ ۔ نوشی گیلانی

مُجھے موت دے کہ حیات دے ۔ ۔ نوشی گیلانی

مُجھے موت دے کہ حیات دے

مِرے بے ہُنر مِرا سات دے
---
مِری پیاس صدیوں کی پیاس ہے

مِرے کربلا کو فرات دے
---
مِرے رتجگوں کے حساب میں

کوئی ایک نیند کی رات دے
---
کوئی ایسا اسمِ عظیم ہو

مُجھے تیرے دُکھ سے نجات دے
---
یہ جو تِیرگی ہے غُرور میں

کوئی روشنی اِسے مات دے
---
مِری شاعری کے نصیب میں

کوئی ایک حرفِ ثبات دے
---


جس طرح ماں کی دُعا ہوتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

جس طرح ماں کی دُعا ہوتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

جس طرح ماں کی دُعا ہوتی ہے

شاعری ردِ بلا ہوتی ہے
---

شامِ تنہائی میں ۔ ۔ نوشی گیلانی


شامِ تنہائی میں ۔ ۔ نوشی گیلانی

شامِ تنہائی میں

اب بھی شاعر رہوں

کِس کی خاطر رہوں

کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے ہُوئے

آنسوؤں میں چھُپے درد چُنتا پھرے

خواب بُنتا پھرے

کون ہے جو مِرے خُون ہوتے ہُوئے دل کی آواز پر

اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پھرے

کون آنکھیں مِری دیکھ کر یہ کہے

’’کیا ہُوا جانِ جاں

کب سے سوئی نہیں

اس سے پہلے تو تم اِتنا روئی نہیں

اَب بھلا کِس لیے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں

اپنی حالت پہ خُود اتنی حیران ہیں ‘‘

کون بے چین ہو

کون بے تاب ہو

موسمِ ہجر ک شامِ تنہائی میں

آبلہ پائی میں 

کون ہو ہم سفر ، گرد ہے رہگزر

کوئی رستہ نہیں کوئی راہی نہیں

در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں

دل کے ویران و برباد صفحات پر

جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں

ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں

سوچتی ہوں کہ اَب

ان خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں

کیوں میں شاعر رہوں

کِس کی خاطر رہوں
---

انحراف ۔ ۔ نوشی گیلانی

انحراف ۔ ۔ نوشی گیلانی

انحراف 

بہت تاخیر سے لیکن 

کھُلا یہ بھید خُود پر بھی

کہ میں اب تک

مّحبت جان کر جس

جذبۂ دیرینہ کو اپنے لہُو سے سینچتی آئی

وہ جس کی ساعتِ صد مہرباں ہی زندگی کی شرط ٹھہری تھی

فقط اک شائبہ ہی تھا مّحبت کا

یُو نہی عادت تھی ہر رستے پہ اُس کے ساتھ چلنے کی

وگر نہ ترک خواہش پر

یہ دل تھوڑا سا تو دُکھتا

ذرا سی آنکھ نَم ہوتی
---

چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے ۔ ۔ نوشی گیلانی


چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے ۔ ۔ نوشی گیلانی

چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے

تجھ سے گر بد گُمان ہو جاتے
---
ضبطِ غم نے بچا لیا ورنہ

ہم کوئی داستان ہو جاتے
---
تُو نے دیکھا نہیں پلٹ کے ہمیں

ورنہ ہم مہربان ہو جاتے
---
تیرے قصّے میں ہم بھلا خُود سے

کس لیے بد گُمان ہو جاتے
---
تیرے دل کی زمین ہی نہ مِلی

ورنہ ہم آسمان ہو جاتے
---

ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے

صبح کی رنگت دھانی بھی ہو سکتی ہے
---
جب کشتی ڈالی تھی کس نے سوچا تھا

دریا میں طُغیانی بھی ہو سکتی ہے
---
نئے سفر کے نئے عذاب اور نئے گُلاب

صُورت حال پرانی بھی ہو سکتی ہے
---
ہر پَل جو دِل کو دہلائے رکھتی ہے

کُچھ بھی نہیں حیرانی بھی ہو سکتی ہے
---
سفر ارادہ کر تو لیا پر رستوں میں

رات کوئی طوفانی بھی ہو سکتی ہے
---
اُس کو میرے نام سے نسبت ہے لیکن

بات یہ آنی جانی بھی ہو سکتی ہے
---

دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا ۔ ۔ نوشی گیلانی

دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا ۔ ۔ نوشی گیلانی

دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا

یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں

دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
طُولِ شبِ فراق تری خیر ہو کہ دل

آمادۂ وصال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
یہ ہم ہی جانتے ہیں جُدائی کے موڑ پر

اِس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
آئی نہ تھی کبھی مِرے لفظوں میں روشنی

اور مُجھ سے یہ کمال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
بچھڑے تو جیسے ذہن معطّل سا ہو گیا

شہرِ سخن بحال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
پھر لوگ آ گئے مِرا ماضی کُریدنے

پھر مُجھ سے اَک سوال تجھے دیکھ کر ہُوا
---

تجھ سے اب اور محّبت نہیں کی جا سکتی ۔ ۔ نوشی گیلانی

تجھ سے اب اور محّبت نہیں کی جا سکتی ۔ ۔ نوشی گیلانی

تجھ سے اب اور محّبت نہیں کی جا سکتی

خُود کو اِتنی بھی اذیت نہیں دی جا سکتی
---
جانتے ہیں کہ یقین ٹُوٹ رہا ہے دل پر

پھر بھی اب ترک یہ وحشت نہیں کی جا سکتی
---
حبس کا شہر ہے اور اِس میں کسی بھی صُورت

سانس لینے کی سہولت نہیں دی جا سکتی
---
روشنی کیلئے دروازہ کھُلا رکھنا ہے

شب سے اب کوئی اجازت نہیں لی جا سکتی
---
عشق نے ہجر کا آزار تو دے رکھا ہے

اِس سے بڑھ کو تو رعایت نہیں دی جا سکتی
---

جمعرات، 29 جون، 2017

کہ ایک شخص پریشاں مِری تلاش میں ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

کہ ایک شخص پریشاں مِری تلاش میں ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

یہی نہیں کوئی طوفاں مِری تلاش میں ہے

کہ موسمِ غمِ جاناں مری تلاش میں ہے
---
وصال رُت ہے مگر دِل کو ایسا لگتا ہے

ستارۂ شب ہجراں مِری تلاش میں ہے
---
میں فیصلے کی گھڑی سے گزر چکی ہُوں مگر

کسی کا دیدۂ حیراں مِری تلاش میں ہے
---
یہ بے یقین سی آسودگی بتاتی ہے

کہ ایک قریۂ دِیراں مِری تلاش میں ہے
---
میں تیرِ گی میں محبّت کی اِک کہانی ہوں

کوئی چراغ سا عنوان مری تلاش میں ہے
---
یہ کیسا خواب تھا دھڑکا سا لگ گیا دِل کو

کہ ایک شخص پریشاں مِری تلاش میں ہے
---

اتنے سچّے کیوں ہوتے ہیں ۔ ۔ نوشی گیلانی

اتنے سچّے کیوں ہوتے ہیں ۔ ۔ نوشی گیلانی

اتنے سچّے کیوں ہوتے ہیں

بچّے اچھّے کیوں ہوتے ہیں
---

کُچھ بھی تو نہیں ویسا ۔ ۔ نوشی گیلانی

کُچھ بھی تو نہیں ویسا

کُچھ بھی تو نہیں ویسا

جیسا تجھے سوچا تھا

جتنا تجھے چاہا تھا

سوچا تھا تیرے لب پر

کُچھ حرف دُعاؤں کے

کُچھ پھُول وفاؤں کے

مہکیں گی مِری خاطر

کُچھ بھی تو نہیں ویسا

جیسا تجھے سوچا تھا

محسوس یہ ہوتا ہے

دُکھ جھیلے تھے جو اَب تک

بے نام مسافت میں

لکھنے کی محبّت میں

پڑھنے کی ضرورت میں

بے سُور ریاضت تھی

بے فیض عبادت تھی

جو خواب بھی دیکھے تھے

ان جاگتی آنکھوں نے

سب خام خیالی تھی

پھر بھی تجھے پانے کی

دل کے کسی گوشے میں

خواہش تو بچا لی تھی

لیکن تجھے پاکر بھی

اور خود کو گنوا کر بھی

اس حبس کے موسم کی کھڑی سے ہوا آئی

نہ پھول سے خُوشبو کی کوئی بھی صدا آئی

اب نیند ہے آنکھوں میں

ناں دل میں وہ پہلی سی تازہ سخن آرائی

ناں لفظ مِرے نکلے

ناں حرف و معافی کی دانش مِرے کام آئی

نادیدہ رفاقت میں

جتنی بھی اذیت تھی

سب میرے ہی نام آئی

کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا

جتنا تجھے چاہا تھا
---

بس اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ۔ ۔ نوشی گیلانی

بس اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ۔ ۔ نوشی گیلانی

بس اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں

میں اب تجھ سے مُکرنا چاہتی ہوں
---
میں اپنی عُمر کے سارے اثاثے

نئے ڈھب سے برتنا چاہتی ہوں
---
یہ دل پھر تیری خواہش کر رہا ہے

مگر میں دُکھ سے بچنا چاہتی ہوں
---
کوئی حرفِ وفا ناں حرفِ سادہ

میں خاموشی کو سُننا چاہتی ہوں
---
میں بچپن کے کِسی لمحے میں رُک کر

کوئی جُگنو پکڑنا چاہتی ہوں
---

بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں ۔ ۔ نوشی گیلانی

بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں ۔ ۔ نوشی گیلانی

ورثہ

بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں

ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے

سارے درد چُھپا لیتی ہیں

روتے روتے ہنس پڑتی ہیں

ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رو لیتی ہیں

خوشی کی خواہش کرتے کرتے

خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں

سو حصّوں میں بٹ جاتی ہیں

گھر کے دروازے پر بیٹھی

اُمیدوں کے ریشم بنتے ….ساری عُمر گنوا دیتی ہیں

میں جو گئے دنوں میں

ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی

اب خود بھی تو

عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگا ئے

فصل خوشی کی بوتی ہوں

اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں

جانے کیسی رسم ہے یہ بھی

ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں

اپنا مقدّر دے دیتی ہے
---

مَیں بد دُعا تو نہیں دے رہی ہُوں اُس کو مگر ۔ ۔ نوشی گیلانی

مَیں بد دُعا تو نہیں دے رہی ہُوں اُس کو مگر ۔ ۔ نوشی گیلانی

مَیں بد دُعا تو نہیں دے رہی ہُوں اُس کو مگر

دُعا یہی ہے اُسے مُجھ سا اب کوئی نہ مِلے
---

نہ گُفتگو کا کمال آہنگ ۔ ۔ نوشی گیلانی

نہ گُفتگو کا کمال آہنگ ۔ ۔ نوشی گیلانی

حیرت

نہ گُفتگو کا کمال آہنگ

نہ بات کے بے مثال معنی

نہ خال و خد میں وہ جاذبیت

جو جسم و جاں کو اسیر کر لے

نہ مستقل کوئی عکس خواہش

مگر یہ کیا ہے

میں کس کی خاطر

وفا کے رستوں پہ لکھ رہی ہوں

مسافرت کی نئی کہانی 
---

اب یہ بات مانی ہے ۔ ۔ بوشی گیلانی

اب یہ بات مانی ہے ۔ ۔ بوشی گیلانی

اب یہ بات مانی ہے

وصل رائیگانی ہے
---
اس کی درد آنکھوں میں

ہجر کی کہانی ہے
---
جیت جس کسی کی ہو

ہم نے ہار مانی ہے
---
چوڑیاں بکِھرنے کی

رسم یہ پُرانی ہے
---
عُمر کے جزیرے پر

غم کی حکمرانی ہے
---
مِل گیا تو وحشت کی

داستاں سناتی ہے
---
ہجر توں کے صحرا کی

دل نے خاک چھانی ہے
---

منفرد سا کوئی پیدا وہ فن چاہتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

منفرد سا کوئی پیدا وہ فن چاہتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

منفرد سا کوئی پیدا وہ فن چاہتی ہے

زندگی ایک نیا طرزِ سخن چاہتی ہے
---
رُوح کے بے سرو سامانی سے باہر آ کر

شاعری اپنے لیے ایک بدن چاہتی ہے
---
ہر طرف کتنے ہی پھُولوں کی بہاریں ہیں یہاں

پر طبیعت وُہی خوشبوےُ وطن چاہتی ہے
---
سانس لینے کو بس اِک تازہ ہَوا کا جھونکا

زندگی وہ کہاں سرو و سمن چاہتی ہے
---
دُور جا کر در و دیوار کی رونق سے کہیں

ایک خاموش سا اُجڑا ہُوا بن چاہتی ہے

کون بھنور میں ملّاحوں سے اب تکرار کرے گا ۔ ۔ نوشی گیلانی

کون بھنور میں ملّاحوں سے اب تکرار کرے گا ۔ ۔ نوشی گیلانی

کون بھنور میں ملّاحوں سے اب تکرار کرے گا

اب تو قسمت سے ہی کوئی دریا ہار کرے گا
---
سارا شہر ہی تاریکی پر یُوں خاموش رہا تو

کون چراغ جلانے کے پیدا آثار کرے گا
---
جب اُس کو کردار تُمھارے سچ کو زد میں آیا

لکھنے والا شہرِ کی کالی، ہر دیوار کرے گا
---
جانے کون سی دھُن میں تیرے شہر میں آ نکلے ہیں

دل تجھ سے ملنے کی خواہش اب سو بار کرے گا
---
دِل میں تیرا قیام تھا لیکن اَب یہ کِسے خبر تھی

دُکھ بھی اپنے ہونے پر اتِنا اصرار کرے گا
---

پُوچھ لو پھُول سے کیا کرتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

پُوچھ لو پھُول سے کیا کرتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

پُوچھ لو پھُول سے کیا کرتی ہے

کبھی خوشبو بھی وفا کرتی ہے
---
خیمۂ دل کے مقدّر کا یہاں

فیصلہ تیز ہَوا کرتی ہے
---
بے رُخی تیری،عنایت تیری

زخم دیتی ہے، دَوا کرتی ہے
---
تیری آہٹ مِری تنہائی کا

راستہ روک لیا کرتی ہے
---
روشنی تیرا حوالہ ٹھہرے

میری ہر سانس دُعا کرتی ہے
---
میری تنہائی سے خاموشی تری

شعر کہتی ہے، سُنا کرتی ہے

یہ میری عمر مرے ماہ و سال دے اُس کو ۔ ۔ نوشی گیلانی

یہ میری عمر مرے ماہ و سال دے اُس کو ۔ ۔ نوشی گیلانی

یہ میری عمر مرے ماہ و سال دے اُس کو

مِرے خدا مِرے دُکھ سے نکال دے اُس کو
---
وہ چُپ کھڑا ہے کئی دن سے تیری خاطر تو

کواڑ کھول دے اذنِ سوال دے اُس کو
---
عذاب بد نظری کا جِسے شعور نہ ہو

یہ میری آنکھیں، مِرے خّد و خال دے اُس کو
---
یہ دیکھنا شب ہجراں کہ کِس کی دستک ہے

وصال رُت ہے اگر وہ تو ٹال دے اُس کو
---
وہ جس کا حرفِ دُعا روشنی ہے میرے لیے

میں بُجھ بھی جاؤں تو مولا اُجال دے اُس کو

خواہش کے اظہار سے ڈرنا سِیکھ لیا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

خواہش کے اظہار سے ڈرنا سِیکھ لیا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

خواہش کے اظہار سے ڈرنا سِیکھ لیا ہے

دِل نے کیوں سمجھوتہ کرنا سِیکھ لیا ہے

کون روک سکتا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

کون روک سکتا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

کون روک سکتا ہے 

لاکھ ضبطِ خواہش کے

بے شمار دعوے ہوں

اُس کو بھُول جانے کے

بے پنہ اِرادے ہوں

اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا

فیصلہ سُنانے کو

کتنے لفظ سوچے ہوں

دل کو اس کی آہٹ پر

برَملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے

پھر وفا کے صحرا میں

اُس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی

خُوشبوؤں کو چھُونے کی

جستجو میں رہنے سے

رُوح تک پگھلنے سے

ننگے پاؤں چلنے سے

کون روک سکتا ہے

آنسوؤں کی بارش میں

چاہے دل کے ہاتھوں میں

ہجر کے مُسافر کے

پاؤں تک بھی چھُو آؤ

جِس کو لَوٹ جانا ہو

اس کو دُور جانے سے

راستہ بدلنے سے

دُور جا نکلنے سے

کون روک سکتا ہے

ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبح وصَال میں رکھے ۔ ۔ نوشی گیلانی

ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبح وصَال میں رکھے ۔ ۔ نوشی گیلانی

ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبح وصَال میں رکھے

اچھّا مولا! تیری مرضی تو جس حال میں رکھے
---
کھیل یہ کیسا کھیل رہی ہے دل سے تیری محبّت

اِک پَل کی سرشاری دے اور دِنوں ملال میں رکھے
---
میں نے ساری خُوشبوئیں آنچل سے باندھ کے رکھیں

شاید ان کا ذِکر تُو اپنے کسی سوال میں رکھے
---
کِس سے تیرے آنے کی سرگوشی کو سُنتے ہی

میں نے کِتنے پھُول چُنے اور اپنی شال میں رکھے
---
مشکل بن کر ٹَوٹ پڑی ہے دِل پر یہ تنہائی

اب جانے یہ کب تک اس کو اپنے جال میں رکھے

کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

برف کے پگھلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
---
اُس نے ہنس کے دیکھا تو مُسکرا دیے ہم بھی

ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
---
ہجر کی تمازت سے وصَل کے الاؤ تک

لڑکیوں کے جلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
---
بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہو گی

بات کے مُکرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
---
زعم کِتنا کرتے ہو اِک چراغ پر اپنے

اور ہَوا کے چلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے
---
جب یقیں کی بانہوں پر شک کے پاؤں پڑ جائیں

چوڑیاں بِکھرنے میں دیر کِتنی لگنی ہے

دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے ۔ ۔ نوشی گیلانی

دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے ۔ ۔ نوشی گیلانی

دُشمنِ جاں کئی قبیلے ہُوئے

پھر بھی خُوشبو کے ہاتھ پِیلے ہُوئے
---
بد گُمانی کے سَرد موسم میں

میری گُڑیا کے ہاتھ نِیلے ہُوئے
---
جب زمیں کی زباں چٹخنے لگی

تب کہیں بارشوں کے حیلے ہُوئے
---
وقت نے خاک وہ اُڑائی ہے

شہر آباد تھے جو ٹِیلے ہُوئے
---
جب پرندوں کی سانس رُکنے لگی

تب ہواؤں کے کُچھ وسیلے ہُوئے
---
کوئی بارش تھی بد گُمانی کی

سارے کاغذ ہی دِل کے گَیلے ہُوئے

عقل کی زکوۃ ۔ ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ

عقل کی زکوۃ ۔ ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ

ہر شے کی زکوۃ ہے اور عقل کی زکوۃ نادانوں کی باتوں پر صبر کرنا ہے

حضرت علی کرم اللہ وجہہ

زُہد و تقویٰ کی حقیقت ۔ ۔ حضرت با یزید بسطامی

زُہد و تقویٰ کی حقیقت ۔ ۔ حضرت با یزید بسطامی

حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زندگی بھر کسی شخص نے بھی کسی معاملہ میں مجھے اس طرح شکست نہیں دی جس طرح بلخ کے ایک نوجوان نے دی.. میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں اس سے ہار گیا..
شاگردوں نے پوچھا.. " حضرت ! اصل واقعہ کیا ہے.. "
فرمایا.. " ایک دفعہ بلخ کا ایک نوجوان حج کو جاتے ہوئے میرے پاس حاضر ہوا جو انتہائی متوکل اور صابر نوجوان تھا.. اس نے مجھ سے سوال کیا کہ زہد کی حقیقت آپ کے نزدیک کیا ہے..
میں نے کہا کہ جب ہمیں ملے تو کھالیں اور جب نہ ملے تو صبر کریں..
اس نے کہا ایسے تو ہمارے ہاں بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں.. جب ملے کھالیتے ہیں اور جب نہ ملے تو صبر کر لیتے ہیں.. یہ تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے..
میں نے پوچھا تو پھر تمہارے ہاں زہد کی حقیقت کیا ہے..
وہ کہنے لگا جب ہمیں نہ ملے تو پھر بھی حمد و شکر کریں اور جب ملے تو دوسرں پر ایثار کر دیں.. یہ ہے زہد کی حقیقت..!!

عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے ۔ ۔ عدم

عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے ۔ ۔ عدم

عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے

ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا ۔ ۔ احمد فراز

کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا ۔ ۔ احمد فراز

کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا

کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو 


وفا میں اب یہ ہنر اختیار کر نا ہے ۔ ۔ محسن نقوی

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کر نا ہے  ۔ ۔ محسن نقوی

وفا میں اب یہ ہنر اختیار کر نا ہے 

وہ سچ کہے نہ کہے ، اعتبار کرنا ہے 
---
یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا

مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ہے 
---
ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسووں کے چراغ 

کبھی یہ جشن سر_ راہ گزار کرنا ہے 
---
مثال _شاخ _برہنہ ، خزاں کی رت میں کبھی 

خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ہے 
---
تیرے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے 

کہ شغل _شب تو ستارے شمار کرنا ہے 
---
کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں 

قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ہے 
---
خدا خبر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن 

خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے

’’ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو ‘‘ ۔ ۔ انور مسعود

طنز و مزاح

ہیروئن

ہیروئن بیچنے والے سے کہا لیلیٰ نے

یہ جو پوڈر ہے، سنگھا دو میرے پروانے کو

یوں ہی مر جائے کسی روز نشے کے ہاتھوں

’’ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو ‘‘

وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے ۔ ۔ احمد فراز

وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے ۔ ۔ احمد فراز

وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے

یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے
--
مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست

آئے ہیں تو کس طرح کے حالات میں آئے
--
کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں

تا اور بھی اعجاز ترے ہاتھ میں آئے
--
اب ذکرِ زمانہ ہے تو ناراض نہ ہونا

گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے
--
اچھا ہے تنّوع ترے اندازِ ستم میں

کچھ رنگِ مروّت بھی اگر ساتھ میں آئے
--
اک عمر سے جیسے نہ جُنوں ہے نہ سکوں ہے

یارب کوئی گردش مرے حالات میں آئے
--
یہ سال بھی اچھا تھا کہ یاروں کی طرف سے

کچھ اب کے نئے زخم بھی سوغات میں آئے
--
ہم ایسے فقیروں سے محبت سے ملا کر

تا اور بلندی ترے درجات میں آئے
--
ساتھ اُس کے فرازؔ ایسے بھی دن رات گزارے

اب جن کا مزہ صرف حکایات میں آئے

منگل، 27 جون، 2017

‏ہمارے معاشرے میں

Golden-Words

‏ہمارے معاشرے میں نفرت کو "اولاد" کی طرح پالا جاتا ہے اور محبت کو "یتیموں" کی طرح ۔ ۔

نامعلوم

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو ۔ ۔ امجد اسلام امجد

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو

اس کا روپ امر

تم جس رنگ کا کپڑا پہنو

وہ موسم کا رنگ

تم جس پھول کو ہنس کے دیکھو کبھی نہ وہ مرجھائے

تم جس حرف پہ انگلی رکھ دو

وہ روشن ہو جائے

اے عشق جنوں پیشہ ۔ ۔ احمد فراز

اے عشق جنوں پیشہ

اے عشق جنوں پیشہ

عمروں کی مسافت سے

تھک ہار گئے آخر

سب عہد اذیّت کے

بیکار گئے آخر

اغیار کی بانہوں میں

دلدار گئے آخر

رو کر تری قسمت کو

غمخوار گئے آخر

یوں زندگی گزرے گی

تا چند وفا کیشا

وہ وادیء الفت تھی

یا کوہِ الَم جو تھا

سب مدِّ مقابل تھے

خسرو تھا کہ جم جو تھا

ہر راہ میں ٹپکا ہے

خوننابہ بہم جو تھا

رستوں میں لُٹایا ہے

وہ بیش کہ کم جو تھا

نے رنجِ شکستِ دل

نے جان کا اندیشہ

کچھ اہلِ ریا بھی تو

ہمراہ ہمارے تھے

رہرو تھے کہ رہزن تھے

جو روپ بھی دھارے تھے

کچھ سہل طلب بھی تھے

وہ بھی ہمیں پیارے تھے

اپنے تھے کہ بیگانے

ہم خوش تھے کہ سارے تھے

سو زخم تھے نَس نَس میں

گھائل تھے رگ و ریشہ

جو جسم کا ایندھن تھا

گلنار کیا ہم نے

وہ زہر کہ امرت تھا

جی بھر کے پیا ہم نے

سو زخم ابھر آئے

جب دل کو سیا ہم نے

کیا کیا نہ مَحبّت کی

کیا کیا نہ جیا ہم نے

لو کوچ کیا گھر سے

لو جوگ لیا ہم نے

جو کچھ تھا دیا ہم نے

اور دل سے کہا ہم نے

رکنا نہیں درویشا

یوں ہے کہ سفر اپنا

تھا خواب نہ افسانہ

آنکھوں میں ابھی تک ہے

فردا کا پری خانہ

صد شکر سلامت ہے

پندارِ فقیرانہ

اس شہرِ خموشی میں

پھر نعرہء مستانہ

اے ہمّتِ مردانہ

صد خارہ و یک تیشہ

اے عشق جنوں پیشہ

اے عشق جنوں پیشہ

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی​ ۔ ۔ احمد فراز

احمد فراز کی شاعری

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی​

فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی​
یہ قرب کیا ہے کہ تُو سامنے ہے اور ہمیں​

شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی​
کوئی خدا ہو کہ پتھر جسے بھی ہم چاہیں​

تمام عمر اُسی کی عبادتیں کرنی​
سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اُس کے​

کسی کو شکر کسی کو شکایتیں کرنی​
ہم اپنے دل سے ہیں مجبور اور لوگوں کو​

ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی​
ملیں جب اُن سے تو مبہم سی گفتگو کرنا​

پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی​
یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباہتے ہیں​

ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی​
کبھی فراز نئے موسموں میں رو دینا​

کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی​


شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا ۔ ۔ احمد فراز

شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ہفتہ، 17 جون، 2017

غنچوں کے گریباں لیتا جا پھولوں کی کلاہیں لیتا جا ۔ ۔ عدمؔ

غنچوں کے گریباں لیتا جا پھولوں کی کلاہیں لیتا جا ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

اے زیست کی تلخی کے شاکی صرف ایک نصیحت ہے میری

آنکھوں کی شرابیں پیتا جا زلفوں کی پناہیں لیتا جا

اے موسم گل جاتا ہے اگر پھر اتنا تکلف کیا معنی

غنچوں کے گریباں لیتا جا پھولوں کی کلاہیں لیتا جا

آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں ۔ ۔ عدمؔ

آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

ہنس کے آپ جھوٹ بولتے ہیں

دل میں کتنی مٹھاس گھولتے ہیں

دنیا کتنی حسین لگتی ہے

آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں

مسلسل ترا دھیان آنے لگا ۔ ۔ عدمؔ

مسلسل ترا دھیان آنے لگا ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

امنگوں میں ہیجان آنے لگا 

سمندر میں طوفان آنے لگا 

یہ پہلی علامت نہ ہو عشق کی 

مسلسل ترا دھیان آنے لگا

ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی ۔ ۔ عدمؔ

ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

نوجوانی کے عہدِ رنگیں میں

جز مے ناب اور کیا پینا

ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی

تلخ ہے جام، تلخ ہے جینا