ہفتہ، 17 جون، 2017

ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے ۔ ۔ عدمؔ

ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے ۔ ۔ عدمؔ

غزل

غموں کی رات بڑی بے کلی سے گزری ہے 

گزر گئی ہے مگر جاں کئی سے گزری ہے 

مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر 

وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے 

خزاں تو خیر خزاں ہے ، ہمارے گلشن سے 

بہار بھی بڑی آزردگی سے گزری ہے 

گزر تو خیر گئی ہے عدم حیات مگر 

ستم ظریف بڑی بے رُخی سے گزری ہے


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔