پیر، 24 جولائی، 2017

حاضر جوابی اور حاضر دماغی ۔ ۔ سنہری باتیں

Urdulafz

حاضر جوابی اور حاضر دماغی

٭ ایک شخص نے مشہور شاعر متنبی سے کہا: میں نےدُور سے آپ کو دیکھ کر عورت سمجھا
متنبی نے جواب دیا: میں نے جب دُور سے آپ کو دیکھا تھا آپ کو مرد سمجھا تھا۔

٭ برطانیہ کے موٹے وزیراعظم " چرچل"نے دبلے " برنارڈشاہ " سے کہا : تمہیں جو دیکھے گا وہ سوچے گا کہ برطانیہ میں غذائی بحران ہے۔ اس پر شو نے کہا: جو تمہیں دیکھے گا اس بحران کا سبب بھی سمجھ جائے گا۔

٭ ایک عرب بدو گدھے پر بیٹھ کر ایک گاوں میں گیا تو ایک شخص نے اس سے کہا: میں نے تمہارے گدھے کو دیکھ کرتمہیں پہچان لیا۔ اس نے فورا کہا: جی ہاں گدھے کو گدھا ہی پہچان لیتا ہے۔

٭ایک آدمی نے ایک خاتون سے کہا: تم کتنی خوبصورت ہو۔ خاتون نے کہا: کاش تم بھی خوبصورت ہوتے تو میں بھی تم سے یہی کہتی۔ آدمی نے کہا: کوئی مسئلہ نہیں میری طرح جھوٹ ہی بول لو۔

٭ایک خاتون کسی گاوں میں چار گدھوں کو ہانک کر کھیتوں میں جارہی تھی دو نوجوان سامنے سے آئے اور کہا : صبح بخیر گدھوں کی ماں۔ خاتون نے فورا کہا: صبح بخیر میرے بچوں۔

٭ ایک بدو ایک بار ایک عرب شہزادے کے ساتھ بکری کا گوشت کھا رہا تھا ، شہزادے نے ان کی جانب سے جلدی جلدی کھانے کو دیکھ کر کہا: بکری کا گوشت ایسا کھارہے ہو کہ گویا اس کی ماں نے تمہیں سینگ ماری تھی۔ بدو نے فورا کہا: تم ایسا کھا رہے ہو جیسی اس کی ماں تمہاری رضاعی ماں تھی...

منقول

منگل، 4 جولائی، 2017

حصارِ لفظ و بیاں میں گُم ہوں ۔ ۔ نوشی گیلانی

حصارِ لفظ  و بیاں میں گُم ہوں ۔ ۔ نوشی گیلانی

حصارِ لفظ  و بیاں میں گُم ہوں

ابھی تری داستان میں گُم ہُوں
---
میں دیکھ سکتی ہُوں دوستوں کو

مگر صفِ دشمناں میں گُم ہُوں
---
بدن کا اپنا عذاب ہے اور

اسی عذاب زیاں میں گُم ہُوں
---
یہ لوگ گھر کہہ رہے ہیں جس کو

میں ایک ایسے مکاں میں گُم ہُوں
---
کہاں وہ لذت مسافتوں کی

میں منزلوں کے نشاں میں گُم ہُوں
---
خبر نہیں موج دشت جاں کی

ہوَا ہُوں اور باد باں میں گُم ہُوں
---
ابھی کہا ں فرصتِ محبّت

ابھی میں کارِ جہاں میں گُم ہُوں
---

لہُو تک آنکھ سے اَب بہہ لیا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

لہُو تک آنکھ سے اَب بہہ لیا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

لہُو تک آنکھ سے اَب بہہ لیا ہے

بہت تھا جَبر لیکن سہہ لیا ہے
---
عذاب ہجر اَب واپس پلٹ جا

بہت دِن ساتھ میرے رہ لیا ہے
---
نمیَ آنکھوں سے جاتی ہی نہیں ہے

ستم اس دِل نے اِتنا سہہ لیا ہے
---
یہ دل کوئی ٹھکانہ چاہتا ہے

بہت دن راستوں میں رہ لیا ہے
---
تجھے کہنا تھا جو احوال دِل کا

درو دیوار سے ہی کہہ لیا ہے
---

قبولیت کا گِلہ نہیں ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

قبولیت کا گِلہ نہیں ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

قبولیت کا گِلہ نہیں ہے

کہ لب پہ کوئی دُعا نہیں ہے
---
عذابِ جاں کا صِلہ نہ مانگو

ابھی تمھیں تجربہ نہیں ہے
---
اُداس چہرے، سوال آنکھیں

یہ میرا شہر وفا نہیں ہے
---
یہ بستیاں جس نے راکھ کر دیں

چراغ تھا وہ، ہَوا نہیں ہے
---
کوئی تو لمحہ سکون کا بھی

یہ زندگی ہے، سزا نہیں ہے
---

تُمھیں خبر ہی نہیں کیسے سر بچایا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

تُمھیں خبر ہی نہیں کیسے سر بچایا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

تُمھیں خبر ہی نہیں کیسے سر بچایا ہے

عذاب جاں پہ سہا ہے تو گھر بچایا ہے
---
تمام عُمر تعلّق سے مُنحرف بھی رہے

تمام عُمر اِسی کو مگر بچایا ہے
---
بدن کو برف بناتی ہُوئی فضا میں بھی

یہ مُعجزہ ہے کہ دستِ ہُنر بچایا ہے
---
سحرِ ہوئی تو مِرے گھر کو راکھ کرتا تھا

وہ اِک چراغ جسے رات بھر بچایا ہے
---
کُچھ ایسی صُورت حالات ہو گئی دل کو

جنوں کو ترک کیا اور ڈر بچایا ہے
---
یقینِ شہر ہُنر نے یقین موسم میں

بہت کٹھن تھا بچانا مگر بچایا ہے
---

بہت تاریک صحرا ہو گیا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

بہت تاریک صحرا ہو گیا ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

بہت تاریک صحرا ہو گیا ہے

ہَوا کا شور گہرا ہو گیا ہے
---
کسی کے لمس کا یہ معجزہ ہے

بدن سارا سنہرا ہو گیا ہے
---
یہ دل دیکھوں کہ جس کے چار جانب

تری یادوں کا پہرہ ہو گیا ہے
---
وُہی ہے خال و خد میں روشنی سی

پہ تِل آنکھوں کا گہرا ہو گیا ہے
---
کبھی اس شخص کو دیکھا ہے تم نے

محّبت سے سنہرا ہو گیا ہے
---

گُریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے - - نوشی گیلانی

گُریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے - - نوشی گیلانی

گُریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے

کبھی وہ دن تھے کہ زُلفوں میں شام رکھتے تھے
---
تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو

وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے
---
ہمیں بھی گھیر لیا گھر زعم نے تو کھُلا

کُچھ اور لوگ بھی اِ س میں قیام رکھتے تھے
---
یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی

ہُوا تھی ساتھ تو خُوشبو مقام رکھتے تھے 
---
نجانے کون سی رُت میں بچھڑ گئے وہ لوگ

جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے
---
وہ آ تو جاتا کبھی ، ہم تو اُس کے رستوں پر

دئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے
---

ہفتہ، 1 جولائی، 2017

میں کن لوگوں میں ہوں کیا لکھ رہی ہُوں ۔ ۔ نوشی گیلانی

میں کن لوگوں میں ہوں کیا لکھ رہی ہُوں ۔ ۔ نوشی گیلانی

میں کن لوگوں میں ہوں کیا لکھ رہی ہُوں

سُخن کرنے سے پہلے سوچتی ہُوں
---
اُداسی مُشتہر ہونے لگی ہے

بھرے گھر میں تماشا ہو گئی ہُوں
---
کبھی یہ خواب میرا راستہ تھے

مگر اب تو اذاں تک جاگتی ہُوں
---
بس اِک حرفِ یقین کی آرزو میں

مَیں کتنے لفظ لکھتی جا رہی ہُوں
---
مَیں اپنی عُمر کی قیمت پہ تیرے

ہر ایک دُکھ کا ازالہ ہو رہی ہُوں
---
غضب کا خوف ہے تنہائیوں میں

اب اپنے آپ سے ڈرنے لگی ہُوں
---

اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے بعد ہُوا ۔ ۔ نوشی گیلانی

اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے بعد ہُوا ۔ ۔ نوشی گیلانی

اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے بعد ہُوا

اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اِک خواب بہت برباد ہُوا
---
یہ ہجر ہَوا بھی دُشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی

وہ نام جو، میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہُوا
---
اِس شہر میں کتنے چہرے تھے، کُچھ یاد نہیں سب بھُول گئے

اِک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہُوا
---
وہ اپنی گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا

اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہُوا یا شاد ہُوا
---
بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں

ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بے داد ہُوا
---

اب اپنے فیصلے پر خُود اُلجھنے کیوں لگی ہوں ۔ ۔ نوشی گیلانی

اب اپنے فیصلے پر خُود اُلجھنے کیوں لگی ہوں ۔ ۔ نوشی گیلانی

اب اپنے فیصلے پر خُود اُلجھنے کیوں لگی ہوں

ذرا سی بات پر اتنا بکھر نے کیوں لگی ہوں
---
وہ جس موسم کی اب تک منتظر آنکھیں تھیں میری

اسی موسم سے اب میں اِتنا ڈرنے کیوں لگی ہوں
---
مُجھے نادیدہ رستوں پر سفر کا شوق بھی تھا

تھکن پاؤں سے لپٹی ہے تو مرنے کیوں لگی ہوں
---
مُجھے یہ چار دیواری کی رونق مار دے گی

مَیں اِک امکان تھی منزل کا مٹنے کیوں لگی ہوں
---
میں جس کو کم سے کم محسوس کرنا چاہتی تھی

اُسی کی بات کو اِتنا سمجھنے کیوں لگی ہوں
---
جو میرے دل کی گلیوں سے کبھی گُزرا نہیں تھا

اب اپنے ہاتھ سے خط اس کو لکھنے کیوں لگی ہوں
---
بدن کی راکھ تک بھی راستوں میں ناں بچے گی

برستی بارشوں میں یُوں سُلگنے کیوں لگی ہوں
---
وُہی سُورج ہے دُکھ کا پھر یہ ایسا کیا ہُوا ہے

میں پتھر تھی تو آخر اَب پگھلنے کیوں لگی ہوں
---

موت سے مُکر جائیں ۔ ۔ نوشی گیلانی

موت سے مُکر جائیں ۔ ۔ نوشی گیلانی

موت سے مُکر جائیں

زندگی سے ڈر جائیں
---
ہجر کے سمندر کو

آؤ پار کر جائیں
---
راستے یہ کہتے ہیں

اب تو اپنے گھر جائیں
---
اِک ذرا سی مُہلت ہو

دل کی بات کر جائیں
---
شہرِ عشق سے آخر

کیسے معتبر جائیں
---
وہ پلٹ کے دیکھے تو

رنگ سے بِکھر جائیں
---

یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی ۔ ۔ نوشی گیلانی

یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی ۔ ۔ نوشی گیلانی

یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی

پڑی ہُوئی تھیں مُجھے کِتنی عادتیں اُس کی
---
یہ میرا سارا سَفر اُس کی خوشبوؤں میں کٹا

مجھے تو راہ دکھاتی تھیں چاہتیں اُس کی
---
گھِری ہُوئی ہوں میں چہروں کی بھیڑ میں لیکن

کہیں نظر نہیں آتیں شباہتیں اُس کی
---
مَیں دُور ہونے لگی ہوں تو ایسا لگتا ہے

کہ چھاؤں جیسی تھیں مجھ پر رفاقتیں اُس کی
---
یہ کِس گلی میں یہ کِس شہر میں نِکل آئے

کہاں پہ رہ گئیں لوگو صداقتیں اُس کی
---
میں بارشوں میں جُدا ہو گئی ہوں اُس سے مگر

یہ میرا دل، مِری سانسیں امانتیں اُس کی
---

عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے ۔ ۔ نوشی گیلانی

عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے ۔ ۔ نوشی گیلانی

عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے

ہجر کی پُوری رات آتی ہے صبحِ وصال سے پہلے
---
دِل کا کیا ہے دِل نے کتنے منظر دیکھے لیکن

آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے
---
کس نے ریت اُڑائی شب میں آنکھیں کھول کے رکھیں

کوئی مثال تو دو ناں اس کی مثال سے پہلے
---
کارِ محبت ایک سفر ہے اِس میں آ جاتا ہے

ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے
---
عشق میں ریشم جیسے وعدوں اور خوابوں کا رستہ

جتنا ممکن ہو طے کر لیں گر دِ ملال سے پہلے
---

تُمھاری یاد کی دُنیا میں دن سے رات کروں ۔ ۔ نوشی گیلانی

تُمھاری یاد کی دُنیا میں دن سے رات کروں  ۔ ۔ نوشی گیلانی

تُمھاری یاد کی دُنیا میں دن سے رات کروں 

کسی کی بات چلے میں تُمھاری بات کروں
---

اندیشوں کے شہر میں رہنا پڑ جائے گا ۔ ۔ نوشی گیلانی


اندیشوں کے شہر میں رہنا پڑ جائے گا ۔ ۔ نوشی گیلانی

اندیشوں کے شہر میں رہنا پڑ جائے گا

بالآخر ہر دُکھ کو سہنا پڑ جائے گا
---
وقت کی گردش میں آئے تو جان لیا ہے

جھُوٹی بات کو سچّی کہنا پڑ جائے گا
---
اُس کی یاد کے منظر میں اب رات گئے تک

آنسو بن کر آنکھ سے بہنا پڑ جائے گا
---
جس لہجے کی خُوشبو ہر پَل ساتھ رہی ہو

اَسے بھی اب بیگانہ کہنا پڑ جائے گا
---

یہ نام ممکن نہیں رہے گا،مقام ممکن نہیں رہے گا ۔ ۔ نوشی گیلانی

یہ نام ممکن نہیں رہے گا،مقام ممکن نہیں رہے گا ۔ ۔ نوشی گیلانی

یہ نام ممکن نہیں رہے گا،مقام ممکن نہیں رہے گا

غرور لہجے میں آ گیا تو کلام ممکن نہیں رہے گا
---
یہ برف موسم جو شہرِ جاں میں کُچھ اور لمحے ٹھہر گیا تو

لہو کا دل کی کسی گلی میں قیام ممکن نہیں رہے گا
---
تم اپنی سانسوں سے میری سانسیں الگ تو کرنے لگے ہو لیکن

جو کام آساں سمجھ رہے ہو وہ کام ممکن نہیں رہے گا
---
وفا کا کاغذ تو بھیگ جائے گا بدگُمانی کی بارشوں میں

خطوں کی باتیں تو خواب ہوں گی پیام ممکن نہیں رہے گا
---
میں جانتی ہوں مجھے یقیں ہے اگر کبھی تُو مجھے بھُلا دے

تو تیری آنکھوں میں روشنی کا قیام ممکن نہیں رہے گا
---
یہ ہم محبّت میں لا تعلّق سے ہو رہے ہیں تو دیکھ لینا

دُعائیں تو خیر کون دے گا سلام ممکن نہیں رہے گا
---

خامشی سے ہاری میں ۔ ۔ نوشی گیلانی

خامشی سے ہاری میں ۔ ۔ نوشی گیلانی

خامشی سے ہاری میں

جان تجھ پہ واری میں
---
تِیرگی کے موسم میں

روشنی … پُکاری میں
---
عِشق میں بکھرنے تک

حوصلہ نہ ہاری میں
---
ڈھونڈنے وفا نِکلی

قِسمتوں کی ماری میں
---
اُس طرف زمانہ تھا

اِس طرف تھی ساری میں
---
زندگی کی بے سمتی

دیکھ تجھ سے باری میں
---