بدھ، 25 اکتوبر، 2017

ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا ۔ ۔ حید علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا

کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
۔ ۔ ۔
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے

کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
۔ ۔ ۔
دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں

حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا
۔ ۔ ۔
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے

خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
۔ ۔ ۔
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل کے نو لغت

کونین، اک دو ورقہ ہے اپنی کتاب کا
۔ ۔ ۔
اے موجِ بے لحاظ، سمجھ کر مٹائیو

دریا بھی ہے اسیرِ طلسمِ حباب کا
۔ ۔ ۔
اک ترک شہسوار کی دیوانی روح ہے

زنجیر میں ہمارے ہو لوہا رکاب کا
۔ ۔ ۔
حسن و جمال سے ہے زمانے میں روشنی

شب ماہتاب کی ہے، تو روز آفتاب کا
۔ ۔ ۔
اللہ رے ہمارا تکلّف، شبِ وصال

روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا
۔ ۔ ۔
مسجد سے مے کدے میں مجھے نشّہ لے گیا

موجِ شرابِ جادہ تھی، راہِ ثواب کا
۔ ۔ ۔
انصاف سے وہ زمزمہ میرا اگر سنے

دم بند ہووے طوطیِ حاضر جواب کا
۔ ۔ ۔
الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو

طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا
۔ ۔ ۔
معمور جو ہوا عرقِ رخ سے وہ ذقن

مضمون مل گیا مجھے چاہِ گلاب کا
۔ ۔ ۔
پاتا ہوں ناف کا کمرِ یار میں مقام

چشمہ مگر عدم میں ہے گوہر کی آب کا
۔ ۔ ۔
آتش شبِ فراق میں پوچھوں گا ماہ سے

یہ داغ ہے دیا ہوا کس آفتاب کا؟
۔ ۔ ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔