بدھ، 25 اکتوبر، 2017

ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے ۔ ۔ حیدر علی آتش

خواجہ حیدر علی آتش اردو لفظ شاعری

ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے

خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے

بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی

ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں

نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط

کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
طریقِ عشق کا سالک ہے واعظوں کی نہ سُن

ٹھگوں کے کہنے کا کیا اعتبار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
جگہ ہے رحم کی یار ایک ٹھوکر اس کو بھی

شہیدِ ناز کا ترے مزار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
سمندِ عمر کو اللہ رے شوقِ آسایش

عناں گسستۂ و بے اختیار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے

فقط عنایتِ پروردگار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
نہ جائیں آپ ابھی دوپہر ہے گرمی کی

بہت سی گرد بہت سا غبار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
تلاشِ یار میں کیا ڈھونڈیے کسی کا ساتھ

ہمارا سایہ ہمیں ناگوار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
جنوں میں خاک اڑاتا ہے ساتھ ساتھ اپنے

شریکِ حال ہمارا غبار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
کوئی تو دوش سے بارِ سفر اتارے گا

ہزار رہزنِ امیدوار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے

خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
بہت سی ٹھوکریں کھلوائے گا یہ حسن اُن کا

بتوں کا عشق نہیں کوہسار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
پتا یہ کوچۂ قاتل کا سن رکھ اے قاصد

بجائے سنگِ نشاں اِک مزار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل

اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
چلا ہے تیر و کماں لے کے صید گاہ وہ تُرک

خوشا نصیب وہ جو جو شکار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش

گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
۔ ۔ ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔