ایک رخ
وہ فرات کے ساحل پر ہوں یا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں
سارے خنجر ایک طرح کے ہوتے ہیں
گھوڑوں کی ٹاپوں میں روندی ہوئی روشنی
دریا سے مقتل تک پھیلی ہوئی روشنی
جلے ہوئے خیموں میں سہمی ہوئی روشنی
سارے منظر ایک طرح کے ہوتے ہیں
ایسے منظر کے بعد ایک سناٹا چھا جاتا ہے
یہ سناٹا طبل و علم کی دہشت کو کھا جاتا ہے
سناٹا فریاد کی لے ہے احتجاج کا لہجہ ہے
یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بہت پرانا قصہ ہے
ہر قصے میں صبر کے تیور ایک طرح کے ہوتے ہیں
وہ فرات کے ساحل پر ہوں ہا کسی اور کنارے پر
سارے لشکر ایک طرح کے ہوتے ہیں
۔ ۔ ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔