ہفتہ، 17 جون، 2017

پردہ داری ہی پردہ داری ہے ۔ ۔ عدمؔ

پردہ داری ہی پردہ داری ہے ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

سلسلہ تیری میری باتوں کا

پسِ پردہ ہے جو بھی جاری ہے

پردہ اٹھا تو آگہی ہو گی

پردہ داری ہی پردہ داری ہے

تلاش کر کے تو خود بتا کہاں ہوں میں ۔ ۔ عدمؔ

تلاش کر کے تو خود بتا کہاں ہوں میں ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

اگرچہ تیری نظر کا ہی ترجماں ہوں میں

تری نگاہ سے لیکن ابھی نہاں ہوں میں 

میں ہوں ضرور کہیں تیری بزم میں لیکن 

تلاش کر کے تو خود بتا کہاں ہوں میں

یا دوست تسلی دیتے ہیں یا جام سہارا دیتا ہے ۔ ۔ عدمؔ

یا دوست تسلی دیتے ہیں یا جام سہارا دیتا ہے ۔ ۔ عدمؔ

اب شدتِ غم میں مصنوعی آرام سہارا دیتا ہے 

یا دوست تسلی دیتے ہیں یا جام سہارا دیتا ہے

تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے ۔ ۔ عدمؔ

تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے ۔ ۔ عدمؔ

غزل

ہاں ہم ہیں وہاں ربط و کشش سے کام چلتا ہے

سمجھنے اور سمجھانے کی گنجائش بہت کم ہے

محبت ہو گئی ہے زندگی سے اتنی بے پایاں

کہ اب گھبرا کے مر جانے کی گنجائش بہت کم ہے

تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے

تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے



دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا ۔ ۔ عدمؔ

دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا ۔ ۔ عدمؔ

غزل

غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا

ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا

دل میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ

جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا

دل تھا، مسرتیں تھیں، جوانی تھی، شوق تھا

لیکن غمِ زمانہ ہر اک شئے کو کھا گیا

برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ

صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا

کچھ سوچ کر ہمارے گریباں کی وضع پر

عہدِ بہار جاتے ہوئے مسکرا گیا

دل کا ہجومِ غم سے عدم اب یہ حال ہے

دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا

اے عدم احتیاط لوگوں سے ۔ ۔ عدمؔ

اے عدم احتیاط لوگوں سے ۔ ۔ عدمؔ

غزل

جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں 

آدمی بے نظیر ہوتے ہیں 

تیری محفل میں بیٹھنے والے

کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں 

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے

راستے میں فقیر ہوتے ہیں

زندگی کے حسین ترکش میں 

کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں

سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے

لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

ایسے گرا ہے آ کے خرابات میں عدم ۔ ۔ عدمؔ

ایسے گرا ہے آ کے خرابات میں عدم ۔ ۔ عدمؔ

غزل

ظلمت کا پھول مَے کے اجالے میں آ گرا

ہستی کا راز میرے پیالے میں آ گرا 

مہتاب کا تو ذکر ہی کیا جب جلن ہوئی 

سورج بھی زلفِ یار کے ہالے میں آ گرا 

لَوٹی ہے عقل سوئے جنوں اس امنگ سے 

جیسے گناہ گار شوالے میں آ گرا

ایسے گرا ہے آ کے خرابات میں عدم

جیسے چکور چاند کے ہالے میں آ گرا

یار دوزخ میں ہیں مقیم عدم ۔ ۔ عدمؔ

یار دوزخ میں ہیں مقیم عدم ۔ ۔ عدمؔ

غزل

زُلفِ برہم سنبھال کر چلئے 

راستہ دیکھ بھال کر چلئے 

موسمِ گل ہے ، اپنی بانہوں کو 

میری بانہوں میں ڈال کر چلئے 

کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا 

حرج کیا ہے سوال کر چلئے 

یا دوپٹہ نہ لیجئے سر پر 

یا دوپٹہ سنبھال کر چلئے 

یار دوزخ میں ہیں مقیم عدم

خُلد سے انتقال کر چلئے

جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم ۔ ۔ عدمؔ

جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم ۔ ۔ عدمؔ

غزل

یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے

ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے 

واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے 

وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے 

اے شمع! اُن پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر 

جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے 

وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک 

جو حادثات تیری مروّت سے ٹل گئے 

جب بھی وہ مسکرا کے ملے ہم سے اے عدم 

دونوں جہان فرطِ رقابت سے جل گئے

خیالِ جنتِ فردا کو آگ میں جھونکو ۔ ۔ عدمؔ

خیالِ جنتِ فردا کو آگ میں جھونکو ۔ ۔ عدمؔ

غزل

وہ فصلِ گل ، وہ لبِ جوئبار یاد کرو

وہ اختلاط ، وہ قول و قرار یاد کرو 

وہ انگ انگ میں طغیانیاں محبت کی 

وہ رنگ رنگ کے نقش و نگار یاد کرو

وہ نکہتوں کے جنوں خیز و شعلہ بار بھنور 

وہ بلبلوں کی نشیلی پکار یاد کرو 

وہ ہمکلامی ء بے اختیار و سادہ روش 

وہ ہم نشینی ، دیوانہ وار یاد کرو 

خیالِ جنتِ فردا کو آگ میں جھونکو 

عدم حلاوتِ آغوشِ یاد یاد کرو