ہفتہ، 17 جون، 2017

دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا ۔ ۔ عدمؔ

دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا ۔ ۔ عدمؔ

غزل

غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا

ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا

دل میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ

جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا

دل تھا، مسرتیں تھیں، جوانی تھی، شوق تھا

لیکن غمِ زمانہ ہر اک شئے کو کھا گیا

برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ

صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا

کچھ سوچ کر ہمارے گریباں کی وضع پر

عہدِ بہار جاتے ہوئے مسکرا گیا

دل کا ہجومِ غم سے عدم اب یہ حال ہے

دریا پہ جیسے شام کو سکتہ سا چھا گیا

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔