ہفتہ، 1 جولائی، 2017

اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے بعد ہُوا ۔ ۔ نوشی گیلانی

اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے بعد ہُوا ۔ ۔ نوشی گیلانی

اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے بعد ہُوا

اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اِک خواب بہت برباد ہُوا
---
یہ ہجر ہَوا بھی دُشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی

وہ نام جو، میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہُوا
---
اِس شہر میں کتنے چہرے تھے، کُچھ یاد نہیں سب بھُول گئے

اِک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہُوا
---
وہ اپنی گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا

اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہُوا یا شاد ہُوا
---
بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں

ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بے داد ہُوا
---

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔