جمعہ، 30 جون، 2017

آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے ۔ ۔ نوشی گیلانی

آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے ۔ ۔ نوشی گیلانی

آئندہ کبھی اس سے محّبت نہیں کی جائے

کی جائے تو پھر اس کی شکایت نہیں کی جائے
---
اس معرکۂ عشق میں اے اہلِ محبت

آساں ہے عداوت پہ عداوت نہیں کی جائے
---
یہ دل کہ اُسی زُود فراموشی پہ مائل

اور ذہن بضد اس سے محبت نہیں کی جائے
---
ہم اہلِ سخن ہیں تو روایت کے مطابق

مصلوب کیا جائے رعایت نہیں کی جائے
---
یہ لوگ تماشا ہیں تو پھر ان سے جنوں میں

کوئی بھی بیاں دل کی حکایت نہیں کی جائے
---

مُجھے موت دے کہ حیات دے ۔ ۔ نوشی گیلانی

مُجھے موت دے کہ حیات دے ۔ ۔ نوشی گیلانی

مُجھے موت دے کہ حیات دے

مِرے بے ہُنر مِرا سات دے
---
مِری پیاس صدیوں کی پیاس ہے

مِرے کربلا کو فرات دے
---
مِرے رتجگوں کے حساب میں

کوئی ایک نیند کی رات دے
---
کوئی ایسا اسمِ عظیم ہو

مُجھے تیرے دُکھ سے نجات دے
---
یہ جو تِیرگی ہے غُرور میں

کوئی روشنی اِسے مات دے
---
مِری شاعری کے نصیب میں

کوئی ایک حرفِ ثبات دے
---


جس طرح ماں کی دُعا ہوتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

جس طرح ماں کی دُعا ہوتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

جس طرح ماں کی دُعا ہوتی ہے

شاعری ردِ بلا ہوتی ہے
---

شامِ تنہائی میں ۔ ۔ نوشی گیلانی


شامِ تنہائی میں ۔ ۔ نوشی گیلانی

شامِ تنہائی میں

اب بھی شاعر رہوں

کِس کی خاطر رہوں

کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے ہُوئے

آنسوؤں میں چھُپے درد چُنتا پھرے

خواب بُنتا پھرے

کون ہے جو مِرے خُون ہوتے ہُوئے دل کی آواز پر

اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پھرے

کون آنکھیں مِری دیکھ کر یہ کہے

’’کیا ہُوا جانِ جاں

کب سے سوئی نہیں

اس سے پہلے تو تم اِتنا روئی نہیں

اَب بھلا کِس لیے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں

اپنی حالت پہ خُود اتنی حیران ہیں ‘‘

کون بے چین ہو

کون بے تاب ہو

موسمِ ہجر ک شامِ تنہائی میں

آبلہ پائی میں 

کون ہو ہم سفر ، گرد ہے رہگزر

کوئی رستہ نہیں کوئی راہی نہیں

در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں

دل کے ویران و برباد صفحات پر

جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں

ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں

سوچتی ہوں کہ اَب

ان خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں

کیوں میں شاعر رہوں

کِس کی خاطر رہوں
---

انحراف ۔ ۔ نوشی گیلانی

انحراف ۔ ۔ نوشی گیلانی

انحراف 

بہت تاخیر سے لیکن 

کھُلا یہ بھید خُود پر بھی

کہ میں اب تک

مّحبت جان کر جس

جذبۂ دیرینہ کو اپنے لہُو سے سینچتی آئی

وہ جس کی ساعتِ صد مہرباں ہی زندگی کی شرط ٹھہری تھی

فقط اک شائبہ ہی تھا مّحبت کا

یُو نہی عادت تھی ہر رستے پہ اُس کے ساتھ چلنے کی

وگر نہ ترک خواہش پر

یہ دل تھوڑا سا تو دُکھتا

ذرا سی آنکھ نَم ہوتی
---

چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے ۔ ۔ نوشی گیلانی


چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے ۔ ۔ نوشی گیلانی

چُپ نہ رہتے بیان ہو جاتے

تجھ سے گر بد گُمان ہو جاتے
---
ضبطِ غم نے بچا لیا ورنہ

ہم کوئی داستان ہو جاتے
---
تُو نے دیکھا نہیں پلٹ کے ہمیں

ورنہ ہم مہربان ہو جاتے
---
تیرے قصّے میں ہم بھلا خُود سے

کس لیے بد گُمان ہو جاتے
---
تیرے دل کی زمین ہی نہ مِلی

ورنہ ہم آسمان ہو جاتے
---

ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

ہر جانب ویرانی بھی ہو سکتی ہے

صبح کی رنگت دھانی بھی ہو سکتی ہے
---
جب کشتی ڈالی تھی کس نے سوچا تھا

دریا میں طُغیانی بھی ہو سکتی ہے
---
نئے سفر کے نئے عذاب اور نئے گُلاب

صُورت حال پرانی بھی ہو سکتی ہے
---
ہر پَل جو دِل کو دہلائے رکھتی ہے

کُچھ بھی نہیں حیرانی بھی ہو سکتی ہے
---
سفر ارادہ کر تو لیا پر رستوں میں

رات کوئی طوفانی بھی ہو سکتی ہے
---
اُس کو میرے نام سے نسبت ہے لیکن

بات یہ آنی جانی بھی ہو سکتی ہے
---

دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا ۔ ۔ نوشی گیلانی

دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا ۔ ۔ نوشی گیلانی

دل تھا کہ خُوش خیال تجھے دیکھ کر ہُوا

یہ شہر بے مثال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
اپنے خلاف شہر کے اندھے ہجوم میں

دل کو بہت ملال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
طُولِ شبِ فراق تری خیر ہو کہ دل

آمادۂ وصال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
یہ ہم ہی جانتے ہیں جُدائی کے موڑ پر

اِس دل کا جو بھی حال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
آئی نہ تھی کبھی مِرے لفظوں میں روشنی

اور مُجھ سے یہ کمال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
بچھڑے تو جیسے ذہن معطّل سا ہو گیا

شہرِ سخن بحال تجھے دیکھ کر ہُوا
---
پھر لوگ آ گئے مِرا ماضی کُریدنے

پھر مُجھ سے اَک سوال تجھے دیکھ کر ہُوا
---

تجھ سے اب اور محّبت نہیں کی جا سکتی ۔ ۔ نوشی گیلانی

تجھ سے اب اور محّبت نہیں کی جا سکتی ۔ ۔ نوشی گیلانی

تجھ سے اب اور محّبت نہیں کی جا سکتی

خُود کو اِتنی بھی اذیت نہیں دی جا سکتی
---
جانتے ہیں کہ یقین ٹُوٹ رہا ہے دل پر

پھر بھی اب ترک یہ وحشت نہیں کی جا سکتی
---
حبس کا شہر ہے اور اِس میں کسی بھی صُورت

سانس لینے کی سہولت نہیں دی جا سکتی
---
روشنی کیلئے دروازہ کھُلا رکھنا ہے

شب سے اب کوئی اجازت نہیں لی جا سکتی
---
عشق نے ہجر کا آزار تو دے رکھا ہے

اِس سے بڑھ کو تو رعایت نہیں دی جا سکتی
---

جمعرات، 29 جون، 2017

کہ ایک شخص پریشاں مِری تلاش میں ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

کہ ایک شخص پریشاں مِری تلاش میں ہے ۔ ۔ نوشی گیلانی

یہی نہیں کوئی طوفاں مِری تلاش میں ہے

کہ موسمِ غمِ جاناں مری تلاش میں ہے
---
وصال رُت ہے مگر دِل کو ایسا لگتا ہے

ستارۂ شب ہجراں مِری تلاش میں ہے
---
میں فیصلے کی گھڑی سے گزر چکی ہُوں مگر

کسی کا دیدۂ حیراں مِری تلاش میں ہے
---
یہ بے یقین سی آسودگی بتاتی ہے

کہ ایک قریۂ دِیراں مِری تلاش میں ہے
---
میں تیرِ گی میں محبّت کی اِک کہانی ہوں

کوئی چراغ سا عنوان مری تلاش میں ہے
---
یہ کیسا خواب تھا دھڑکا سا لگ گیا دِل کو

کہ ایک شخص پریشاں مِری تلاش میں ہے
---