جمعرات، 29 جون، 2017

وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے ۔ ۔ احمد فراز

وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے ۔ ۔ احمد فراز

وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے

یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے
--
مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست

آئے ہیں تو کس طرح کے حالات میں آئے
--
کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں

تا اور بھی اعجاز ترے ہاتھ میں آئے
--
اب ذکرِ زمانہ ہے تو ناراض نہ ہونا

گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے
--
اچھا ہے تنّوع ترے اندازِ ستم میں

کچھ رنگِ مروّت بھی اگر ساتھ میں آئے
--
اک عمر سے جیسے نہ جُنوں ہے نہ سکوں ہے

یارب کوئی گردش مرے حالات میں آئے
--
یہ سال بھی اچھا تھا کہ یاروں کی طرف سے

کچھ اب کے نئے زخم بھی سوغات میں آئے
--
ہم ایسے فقیروں سے محبت سے ملا کر

تا اور بلندی ترے درجات میں آئے
--
ساتھ اُس کے فرازؔ ایسے بھی دن رات گزارے

اب جن کا مزہ صرف حکایات میں آئے

منگل، 27 جون، 2017

‏ہمارے معاشرے میں

Golden-Words

‏ہمارے معاشرے میں نفرت کو "اولاد" کی طرح پالا جاتا ہے اور محبت کو "یتیموں" کی طرح ۔ ۔

نامعلوم

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو ۔ ۔ امجد اسلام امجد

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو

اس کا روپ امر

تم جس رنگ کا کپڑا پہنو

وہ موسم کا رنگ

تم جس پھول کو ہنس کے دیکھو کبھی نہ وہ مرجھائے

تم جس حرف پہ انگلی رکھ دو

وہ روشن ہو جائے

اے عشق جنوں پیشہ ۔ ۔ احمد فراز

اے عشق جنوں پیشہ

اے عشق جنوں پیشہ

عمروں کی مسافت سے

تھک ہار گئے آخر

سب عہد اذیّت کے

بیکار گئے آخر

اغیار کی بانہوں میں

دلدار گئے آخر

رو کر تری قسمت کو

غمخوار گئے آخر

یوں زندگی گزرے گی

تا چند وفا کیشا

وہ وادیء الفت تھی

یا کوہِ الَم جو تھا

سب مدِّ مقابل تھے

خسرو تھا کہ جم جو تھا

ہر راہ میں ٹپکا ہے

خوننابہ بہم جو تھا

رستوں میں لُٹایا ہے

وہ بیش کہ کم جو تھا

نے رنجِ شکستِ دل

نے جان کا اندیشہ

کچھ اہلِ ریا بھی تو

ہمراہ ہمارے تھے

رہرو تھے کہ رہزن تھے

جو روپ بھی دھارے تھے

کچھ سہل طلب بھی تھے

وہ بھی ہمیں پیارے تھے

اپنے تھے کہ بیگانے

ہم خوش تھے کہ سارے تھے

سو زخم تھے نَس نَس میں

گھائل تھے رگ و ریشہ

جو جسم کا ایندھن تھا

گلنار کیا ہم نے

وہ زہر کہ امرت تھا

جی بھر کے پیا ہم نے

سو زخم ابھر آئے

جب دل کو سیا ہم نے

کیا کیا نہ مَحبّت کی

کیا کیا نہ جیا ہم نے

لو کوچ کیا گھر سے

لو جوگ لیا ہم نے

جو کچھ تھا دیا ہم نے

اور دل سے کہا ہم نے

رکنا نہیں درویشا

یوں ہے کہ سفر اپنا

تھا خواب نہ افسانہ

آنکھوں میں ابھی تک ہے

فردا کا پری خانہ

صد شکر سلامت ہے

پندارِ فقیرانہ

اس شہرِ خموشی میں

پھر نعرہء مستانہ

اے ہمّتِ مردانہ

صد خارہ و یک تیشہ

اے عشق جنوں پیشہ

اے عشق جنوں پیشہ

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی​ ۔ ۔ احمد فراز

احمد فراز کی شاعری

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی​

فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی​
یہ قرب کیا ہے کہ تُو سامنے ہے اور ہمیں​

شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی​
کوئی خدا ہو کہ پتھر جسے بھی ہم چاہیں​

تمام عمر اُسی کی عبادتیں کرنی​
سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اُس کے​

کسی کو شکر کسی کو شکایتیں کرنی​
ہم اپنے دل سے ہیں مجبور اور لوگوں کو​

ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی​
ملیں جب اُن سے تو مبہم سی گفتگو کرنا​

پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی​
یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباہتے ہیں​

ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی​
کبھی فراز نئے موسموں میں رو دینا​

کبھی تلاش پرانی رفاقتیں کرنی​


شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا ۔ ۔ احمد فراز

شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا
شکوہ ظلمت شب سے کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ہفتہ، 17 جون، 2017

غنچوں کے گریباں لیتا جا پھولوں کی کلاہیں لیتا جا ۔ ۔ عدمؔ

غنچوں کے گریباں لیتا جا پھولوں کی کلاہیں لیتا جا ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

اے زیست کی تلخی کے شاکی صرف ایک نصیحت ہے میری

آنکھوں کی شرابیں پیتا جا زلفوں کی پناہیں لیتا جا

اے موسم گل جاتا ہے اگر پھر اتنا تکلف کیا معنی

غنچوں کے گریباں لیتا جا پھولوں کی کلاہیں لیتا جا

آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں ۔ ۔ عدمؔ

آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

ہنس کے آپ جھوٹ بولتے ہیں

دل میں کتنی مٹھاس گھولتے ہیں

دنیا کتنی حسین لگتی ہے

آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں

مسلسل ترا دھیان آنے لگا ۔ ۔ عدمؔ

مسلسل ترا دھیان آنے لگا ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

امنگوں میں ہیجان آنے لگا 

سمندر میں طوفان آنے لگا 

یہ پہلی علامت نہ ہو عشق کی 

مسلسل ترا دھیان آنے لگا

ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی ۔ ۔ عدمؔ

ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی ۔ ۔ عدمؔ

قطعہ

نوجوانی کے عہدِ رنگیں میں

جز مے ناب اور کیا پینا

ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی

تلخ ہے جام، تلخ ہے جینا