وہ یار کسی شام، خرابات میں آئے
یوں ہو تو مزہ میل ملاقات میں آئے
--
مت پوچھ کہ ہم کون ہیں یہ دیکھ کہ اے دوست
آئے ہیں تو کس طرح کے حالات میں آئے
--
کچھ اور مِلا میرا لہو اپنی حنا میں
تا اور بھی اعجاز ترے ہاتھ میں آئے
--
اب ذکرِ زمانہ ہے تو ناراض نہ ہونا
گر نام تمہارا بھی کسی بات میں آئے
--
اچھا ہے تنّوع ترے اندازِ ستم میں
کچھ رنگِ مروّت بھی اگر ساتھ میں آئے
--
اک عمر سے جیسے نہ جُنوں ہے نہ سکوں ہے
یارب کوئی گردش مرے حالات میں آئے
--
یہ سال بھی اچھا تھا کہ یاروں کی طرف سے
کچھ اب کے نئے زخم بھی سوغات میں آئے
--
ہم ایسے فقیروں سے محبت سے ملا کر
تا اور بلندی ترے درجات میں آئے
--
ساتھ اُس کے فرازؔ ایسے بھی دن رات گزارے
اب جن کا مزہ صرف حکایات میں آئے