جمعہ، 27 اپریل، 2018

اب آئینے کے سِوا کوئی روبرو نہیں ہے ۔ ۔ ۔ عرفان ستار

عرفان ستار اردو لفظ شاعری

درون ِ دل ترا ماتم ہے، کُو بہ کُو نہیں ہے

ہمارے مسلک ِ غم میں یہ ہاؤ ہُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
یہ کس کو اپنے سے باہر تلاش کرتے ہیں

یہ کون ہیں کہ جنھیں اپنی جستجو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
میں جیت بھی جو گیا تو شکست ہوگی مجھے

مرا تو اپنے سِوا کوئی بھی عدو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نہیں ہے اب کوئی زندان تک برائے قیام

رسن بھی اب پئے آرائش ِ گُلو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تمام عمر کی ایذا دہی کے بعد کھُلا

میں جس کی یاد میں روتا رہا وہ تُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تُو چیز کیا ہے جو کی جائے تیری قدر میاں

کہ اب تو شہر میں غالب کی آبرو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نہیں چمن کے کسی گُل میں تجھ بدن سی مہک

شراب خانے میں تجھ لب سا اک سُبو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تُو خود پسند، تعلی پسند تیرا مزاج

میں خود شناس، مجھے عادت ِ غُلو نہیں ہے 
۔ ۔ ۔
ہے سرخ رنگ کی اک شے بغیرِجوش و خروش

تری رگوں میں جو بہتا ہے وہ لہُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
ہر ایک اچھا سخن ور ہے داد کا حق دار

کہ بددیانتی اہلِ سخن کی خُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
کہاں سے ڈھونڈ کے لاتا ہے اپنے حق میں دلیل

جناب ِ دل سا کوئی اور حیلہ جوُ نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نگار و جون و رسا سے ملی ہے داد ِ سخن٭

مجھے اب اِس سے زیادہ کی آرزو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
منافقت کا لبادہ اتار دے عرفان

اب آئینے کے سِوا کوئی روبرو نہیں ہے
۔ ۔ ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔