غزل
تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
- - - - -
مایوسیِ مآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
- - - - -
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
- - - - -
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم
- - - - -
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
- - - - -
اللہ رے فریبِ مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔