ہفتہ، 10 جون، 2017

اپنے سینے سے لگائے ہوئے امید کی لاش

شکست

تلخیاں کلیات ساحر

اپنے سینے سے لگائے ہوئے امید کی لاش

مدتوں زیست کو ناشاد کیا ہے میں نے

تو نے تو ایک ہی صدمے سے کیا تھا دوچار

دل کو ہر طرح سے برباد کیا ہے میں نے

جب بھی راہوں میں ‌نظر آئے حریری ملبوس

سرد آہوں میں تجھے یاد کیا ہے میں نے

اور اب جب کہ مری روح کی پہنائی میں

ایک سنسان سی مغموم گھٹا چھائی ہے

تو دمکتے ہوئے عارض کی شعاعیں لے کر

گل شدہ شمعیں جلانے کو چلی آئی ہے

میری محبوب، یہ ہنگامۂ تجدید وفا

میری افسردہ جوانی کے لیے راس نہیں

میں نے جو پھول چنے تھے ترے قدموں کے لیے

ان کا دھندلا سا تصور بھی میرے پاس نہیں

ایک یخ بستہ اُداسی ہے دل و جاں پہ محیط
اب مری روح میں باقی ہے نہ امید نہ جوش

رہ گیا دب کے گراں بار سلاسل کے تلے

میری درماندہ جوانی کی امنگوں کا خروش

ریگ زاروں میں بگولوں کے سوا کچھ بھی نہیں

سایۂ ابرِ گریزاں سے مجھے کیا لینا

بجھ چکے ہیں مرے سینے میں محبت کے کنول

اب ترے حسنِ پشیماں سے مجھے کیا لینا

تیرے عارض پہ یہ ڈھلکے ہوئے سیمیں آنسو

میری افسردگیِ غم کا مداوا تو نہیں

تیری محبوب نگاہوں کا پیامِ تجدید

اک تلافی ہی سہی میری تمنا تو نہیں

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔