درون ِ دل ترا ماتم ہے، کُو بہ کُو نہیں ہے
ہمارے مسلک ِ غم میں یہ ہاؤ ہُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
یہ کس کو اپنے سے باہر تلاش کرتے ہیں
یہ کون ہیں کہ جنھیں اپنی جستجو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
میں جیت بھی جو گیا تو شکست ہوگی مجھے
مرا تو اپنے سِوا کوئی بھی عدو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نہیں ہے اب کوئی زندان تک برائے قیام
رسن بھی اب پئے آرائش ِ گُلو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تمام عمر کی ایذا دہی کے بعد کھُلا
میں جس کی یاد میں روتا رہا وہ تُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تُو چیز کیا ہے جو کی جائے تیری قدر میاں
کہ اب تو شہر میں غالب کی آبرو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نہیں چمن کے کسی گُل میں تجھ بدن سی مہک
شراب خانے میں تجھ لب سا اک سُبو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
تُو خود پسند، تعلی پسند تیرا مزاج
میں خود شناس، مجھے عادت ِ غُلو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
ہے سرخ رنگ کی اک شے بغیرِجوش و خروش
تری رگوں میں جو بہتا ہے وہ لہُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
ہر ایک اچھا سخن ور ہے داد کا حق دار
کہ بددیانتی اہلِ سخن کی خُو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
کہاں سے ڈھونڈ کے لاتا ہے اپنے حق میں دلیل
جناب ِ دل سا کوئی اور حیلہ جوُ نہیں ہے
۔ ۔ ۔
نگار و جون و رسا سے ملی ہے داد ِ سخن٭
مجھے اب اِس سے زیادہ کی آرزو نہیں ہے
۔ ۔ ۔
منافقت کا لبادہ اتار دے عرفان
اب آئینے کے سِوا کوئی روبرو نہیں ہے
۔ ۔ ۔