جمعرات، 15 جون، 2017

تن پرور اور تن ساز۔ ۔ شیخ سعدی

تن پرور اور تن ساز

حضرت شیخ سعدی شیرازی

تن پرور اور تن ساز

بیان کیا جاتا ہے خراسان کے رہنے والے دو درویش کا فی عرصے سے اکٹھے رہتے تھے۔ ان میں سےایک صابر و شاکر اور کم خورد و نوش تھا بھوک سے کم کھاتا اور اپنا زیادہ وقت عبادت د ریاضت میں گزارتا، دوسرے کی حالت اس سے بالکل مختلف تھی۔ وہ خوب کھاتا اور خوب آرام کرتا۔ زندگی گزارنے کے ان الگ الگ طریقوں کی وجہ سے ایک کمزور و لاغر اور دوسرا خوب فربہ تھا۔

ایک بار دونوں درویش ایک شہر میں پہنچے تو وہاں کی پولیس نے انھیں اس شبہے میں گرفتار کر لیا کہ وہ دشمن کے جاسوس ہیں۔ دونوں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ اور حاکم نے سرسری طور پر مقدمہ سننے کے بعد دونوں کو مجرم قرار دے کر جیل خانے بجھوا دیا اور حکم دیا کہ ایک کوٹھڑی میں دونوں کو بند کر کے اس کا دروازہ اینٹوں سے چن دیا جائے۔

حاکم کے حکم کے مطابق دونوں درویشوں کو کال کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ حاکم کو ان کے حالات پر دوبارہ غور کر نے کا یاد آیا اور جب پوری طرح تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ دونوں درویش بے گناہ ہیں۔ چنانچہ انھیں آزاد کر دینے کا حکم جاری ہو گیا۔

کال کوٹھڑی کا دروازہ کھولا گیا تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پتلا دبلا کمزور درویش زندہ تھا لیکن موٹا تازہ دنیا سے کوچ کر چکا تھا۔

اگر عادت ہوسختی جھیلنے کی

تو کمزوری میں بھی رہتی ہے ہمت

مگر تن پرور و پر خوار انساں

نہیں سہہ سکتا اک لمحے کی زحمت

وضاحت

حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں سخت گو شی کی زندگی بسر کرنے کے فائدے سے بیان کیے ہیں یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ جب تک کسی قوم کے افراد سخت کوش اور جفا کش رہتے ہیں ان میں شجاعت اور اولی العزمی باقی رہتی ہے اور وہ زندگی کے ہر میدان میں فتح مند یاں حاصل کرتے ہیں۔ لیکن وہی اعلیٰ و افضل لوگ بند ہ حرص بن جاتے ہیں۔ تو غیر محسوس طور پر ان کی ساری توانائیاں ختم ہو جاتی ہیں قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو گھن کھائی ہوئی لکڑی سے تشبیہ دی گئی ہے۔

٭٭٭

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔