منگل، 13 جون، 2017

بد آواز قوال ۔ ۔ شیخ سعدی

بد آواز قوال از سعدی شیرازی
حضرت شیخ سعدی شیرازی

بد آواز قوال

حضرت سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ میرے استاد حضرت ابوالفرج بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ قوالی سننے کے خلاف تھے، جسے صوفی لوگ سماع کہتے ہیں اور روحانی ترقی کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ ادھر نو عُمری کے جذبات کی وجہ سے مجھے ایسی محفلوں میں جانے کا بہت شوق تھا اور میں اپنے استادکی نصیحت کو نظر انداز کر کے چوری چھپے ایسی محفلوں میں شریک ہوتا رہتا تھا۔

ایک رات کا ذکر، میں ایک محفل میں شریک ہُو ا تو وہاں ایک ایسا گویا گا رہا تھا جس کی آواز بہت خراب تھی اور جو گانے کے فن سے بھی آشنا نہ تھا۔ حاضرین میں سے ہر شخص اس کا گانا سن کر بیزار ہو رہا تھا۔ خود میرا بھی یہی حال تھا: دل چاہتا تھا کہ محفل سے نکل بھاگوں لیکن محفل کے آداب کا خیال کر کے بیٹھا تھا۔

خُدا خُدا کر کے اس بد آواز گویے نے گانا ختم کیا اور لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ انعام و اکرام دینے کا معاملہ تو رہا ایک طرف، کسی کے منہ سے تعریف کا ایک لفظ نہ نکلا۔ لیکن میں جلد ی سے آگے بڑھا، اپنا عمامہ اتار کر اس کے سر پر رکھ دیا۔ کمر سے دینا ر نکال کر اسے دیے اور پھر نہایت گرم جوشی سے اس سے بغل گیر ہو گیا۔

حاضرین نے میری اِس حرکت کو بہت حیرت سے دیکھا۔ ایک صاحب نے پوچھا، بھلا آپ کو اس شخص کے گانے میں کون سی خوبی دکھائی دی جو اس کی عزت بڑھائی؟ ہم نے اج تک نہی دیکھا کہ کسی محفل سے اسے چاندی کا ایک ٹکڑا بھی ملا ہو۔

میں نے کہا، جو کچھ بھی ہو، مجھ پر تو اس شخص کی کرامت ظاہر ہو گئی۔ سوال کیا گیا۔ وہ کیا؟ میں نے جواب دیا، میرے استاد محترم علامہ ابن جوزیؒ نے مجھے بار ہا منع کیا ہے کہ میں سماع کی محفلوں میں شریک نہ ہوا کروں لیکن اس حکم پر عمل نہ کرتا تھا۔ الحمد اللہ آج اس شخص کا گانا سن کر میرے دل کی حالت بدل گنی اور آیندہ میں سماع کی محفلوں میں کبھی شامل نہ ہو گا۔

اچھی آواز بھی انعام ہے اس خالق کی

جب بھی کانوں میں پڑے دل کو لُبھا لیتی ہے

گانے والا جو برا ہو تو حجازی لے بھی 

سننے والے کی سماعت پہ گراں ہوتی ہے

٭٭٭

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔