پیر، 23 اکتوبر، 2017

جبیں کی دھول ، جگر کی جلن چھپائے گا ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

جبیں کی دھول ، جگر کی جلن چھپائے گا

شروع عشق ہے وہ فطرتاً چھپائے گا
۔ ۔ ۔
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن

اس آگ کو نہ تیرا پیرہن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
ترا علاج شفاگاہ عصر نو میں نہیں

خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
حصار ضبط ہے ابر رواں کی پرچھائیں

ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
نظر کا فرد عمل سے ہے سلسلہ درکار

یقیں نہ کر ، یہ سیاہی کفن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن

جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
ترا غبار زمیں پر اترنے والا ہے

کہاں تک اب یہ بگولا تھکن چھپائے گا
۔ ۔ ۔

یوں اس پہ مری عرض تمنا کا اثر تھا ۔ ۔ احسان دانشی

احسان دانش اردو لفظ شاعری

یوں اس پہ مری عرض تمنا کا اثر تھا

جیسے کوئی سورج کی تپش میں گل تر تھا
۔ ۔ ۔
اٹھتی تھیں دریچوں میں ہماری بھی نگاہیں

اپنا بھی کبھی شہر نگاراں میں گزر تھا
۔ ۔ ۔
ہم جس کے تغافل کی شکایت کو گئے تھے

آنکھ اس نے اٹھائی تو جہاں زیر و زبر تھا
۔ ۔ ۔
شانوں پہ کبھی تھے ترے بھیگے ہوئے رخسار

آنکھوں پہ کبھی میری ترا دامن تر تھا
۔ ۔ ۔
خوشبو سے معطر ہے ابھی تک وہ گزرگاہ

صدیوں سے یہاں جیسے بہاروں کا نگر تھا
۔ ۔ ۔
ہے ان کے سراپا کی طرح خوش قد و خوش رنگ

وہ سرو کا پودا جو سر راہ گزر تھا
۔ ۔ ۔
قطرے کی ترائی میں تھے طوفاں کے نشیمن

ذرے کے احاطے میں بگولوں کا بھنور تھا
۔ ۔ ۔

کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

کبھی کبھی جو وہ غربت کدے میں آئے ہیں

مرے بہے ہوئے آنسو جبیں پہ لائے ہیں
۔۔۔
نہ سر گزشت سفر پوچھ مختصر یہ ہے

کہ اپنے نقش قدم ہم نے خود مٹائے ہیں
۔۔۔
نظر نہ توڑ سکی آنسوؤں کی چلمن کو

وہ روز اگرچہ مرے آئینے میں آئے ہیں
۔۔۔
اس ایک شمع سے اترے ہیں بام و در کے لباس

اس ایک لو نے بڑے " پھول بن " جلائے ہیں
۔۔۔
یہ دوپہر ، یہ زمیں پر لپا ہوا سورج

کہیں درخت نہ دیوارو در کے سائے ہیں
۔۔۔
کلی کلی میں ہے دھرتی کے دودھ کی خوشبو

تمام پھول اسی ایک ماں کے جائے ہیں
۔۔۔
نظر خلاؤں پہ اور انتظار بے وعدہ

بہ ایں عمل بھی وہ آنکھوں میں جھلملائے ہیں
۔۔۔

رنگ تہذیب و تمدن کے شناسا ہم بھی ہیں ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

رنگ تہذیب و تمدن کے شناسا ہم بھی ہیں

صورت آئینہ مرہون تماشا ہم بھی ہیں
۔۔۔
حال و مستقبل کا کیا ہم کو سبق دیتے ہیں

اس قدر تو واقف امروز و فردا ہم بھی ہیں
۔۔۔
با دل نا خواستہ ہنستے ہیں دنیا کے لیے

ورنہ یہ سچ ہے ......پشیماں ہم بھی ہیں
۔۔۔
کچھ سفینے ہیں کہ طوفاں سے ہے جن کی ساز باز

دیکھنے والوں میں اک بیرون دریا ہم بھی ہیں
۔۔۔
دیکھنا ہے تو دیکھ لو اٹھتی ہوئی محفل کا رنگ

صبح کے بجھتے چراغوں کا سنبھالا ہم بھی ہیں
۔۔۔
کاغذی ملبوس میں ابھری ہے ہر شکل حیات

ریت کی چادر پہ اک نقش کف پا ہم بھی ہیں
۔۔۔
جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں آثار قدیم

پی گئیں جس کو گزر گاہیں وہ دریا ہم بھی ہیں
۔۔۔

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر ۔ ۔ احسان دانش

احسان دانش اردو لفظ شاعری

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر

تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
۔۔۔
موسم ہے سرد مہر ، لہو ہے جماؤ پر

چوپال چپ ہے ، بھیڑ لگی ہے الاؤ پر
۔۔۔
سب چاندنی سے خوش ہیں ، کسی کو خبر نہیں

پھاہا ہے مہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر
۔۔۔
اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں

جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر
۔۔۔
سورج کے سامنے ہیں نئے دن کے مرحلے

اب رات جا چکی ہے گزشتہ پڑاؤ پر
۔۔۔
گلدان پر ہے نرم سویرے کی زرد دھوپ

حلقہ بنا ہے کانپتی کرنوں کا گھاؤ پر
۔۔۔
یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے

بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر
۔۔۔

بسانِ جوہرِ آئینہ از ویرانیِ دل ہا ۔ ۔ مرزا غالب

مرزا اسد اللہ خاں غالب اردو لفظ شاعری

بسانِ جوہرِ آئینہ از ویرانیِ دل ہا

غبارِ کوچہ ہاۓ موج ہے خاشاکِ ساحل ہا
۔۔۔
نگہ کی ہم نے پیدا رشتۂ ربطِ علائق سے

ہوئے ہیں پردہ ہاۓ چشمِ عبرت جلوہ حائل ہا
۔۔۔
نہیں ہے باوجودِ ضعف سیرِ بے خودی آساں

رہِ خوابیدہ میں افگندنی ہے طرحِ منزل ہا
۔۔۔
غریبی بہرِ تسکینِ ہوس درکار ہے ورنہ

بہ وہمِ زر گرہ میں باندھتے ہیں برقِ حاصل ہا
۔۔۔
تماشا کردنی ہے انتظار آبادِ حیرانی

نہیں غیر از نگہ جوں نرگسستاں فرشِ محفل ہا
۔۔۔
اسد تارِ نفس ہے نا گزیرِ عقدہ پیرائی

بہ نوکِ ناخنِ شمشیر کیجے حلِ مشکل ہا
۔۔۔

نزاکت سے فسونِ دعوئ طاقت شکستن ہا ۔ ۔ مرزا غالب

مرزا اسد اللہ خاں غالب اردو لفظ شاعری

نزاکت سے فسونِ دعوئ طاقت شکستن ہا

شرارِ سنگ اندازِ چراغ از جسمِ خستن ہا
۔۔۔
سیہ مستیِ چشمِ شوخ سے ہیں جوہرِ مژگاں

شرار آسا ز سنگِ سرمہ یکسر مار جستن ہا
۔۔۔
ہوا نے ابر سے کی موسمِ گل میں نمد بافی

کہ تھا آئینۂ خورے نقابِ رنگ بستن ہا
۔۔۔
دلِ از اضطراب آسودہ طاعت گاہِ داغ آیا

برنگِ شعلہ ہے مہرِ نماز از پا نشستن ہا
۔۔۔
تکلف عافیت میں ہے دلا بندِ قبا وا کر

نفس ہا بعدِ وصلِ دوست تاوانِ گستن ہا
۔۔۔
اسد ہر اشک ہے یک حلقہ بر زنجیر افزودن

بہ بندِ گریہ ہے نقشِ ہر آب امید رستن ہا
۔۔۔

دمیدن کے کمیں جوں ریشۂ زیرِ زمیں پایا ۔ ۔ مرزا غالب

مرزا اسد اللہ خاں غالب اردو لفظ شاعری

دمیدن کے کمیں جوں ریشۂ زیرِ زمیں پایا

بہ گرد سرمہ اندازِ نگاہِ شرمگیں پایا
۔۔۔
اگے اک پنبۂ روزن سے بھی چشمِ سفید آخر

حیا کو انتظارِ جلوہ ریزی کے کمیں پایا
۔۔۔
بہ حسرت گاہِ نازِ کشتۂ جاں بخشیِ خوباں

خضر کو چشمۂ آبِ بقا سے تر جبیں پایا
۔۔۔
پریشانی سے مغزِ سر ہوا ہے پنبۂ بالش

خیالِ شوخیِ خوباں کو راحت آفریں پایا
۔۔۔
نفس حیرت پرستِ طرز نا گیرائیِ مژگاں

مگر یک دست دامانِ نگاہِ واپسیں پایا
۔۔۔
اسد کو پیچتابِ طبعِ برق آہنگ مسکن سے

حصارِ شعلۂ جوّالہ میں عزلت گزیں پایا
۔۔۔

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا ۔ ۔ مرزا غالب

مرزا اسد اللہ خاں غالب اردو لفظ شاعری

شوق ہر رنگ رقیبِ سرو ساماں نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
۔۔۔
دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد

کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا
۔۔۔
شورِ رسوائیِ دل دیکھ کہ یک نالۂ شوق

لاکھ پردے میں چھپا، پھر وہی عریاں نکلا
۔۔۔
شوخیِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک

آخر اے عہد شکن، تو بھی پشیماں نکلا
۔۔۔
جوہر ایجادِ خطِ سبز ہے خود بینیِ حسن

جو نہ دیکھا تھا، سو آئینے میں پنہاں نکلا
۔۔۔
تھی نو آموزِ فنا ہمتِ دشواریِ شوق

سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا
۔۔۔
میں بھی معذورِ جنوں ہوں اسد اے خانہ خراب

پیشوا لینے مجھے گھر سے بیاباں نکلا
۔۔۔

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا ۔ ۔ مرزا غالب

مرزا اسد اللہ خاں غالب اردو لفظ شاعری

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا

درد کی پائی، دردِ بے دوا پایا
۔۔۔
غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گُم کیا ہوا پایا
۔۔۔
فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں ز سر تا پا

عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا
۔۔۔
حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی

ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
۔۔۔
شب نظارہ پرور تھا، خواب میں خیال اُس کا

صبح موجۂ گُل کو وقفِ بوریا پایا
۔۔۔
جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ دل ہے

زخمِ تیغِ قاتل کو طرفہ دلکشا پایا
۔۔۔
ہے نگیں کی پا داری، نامِ صاحبِ خانہ

ہم سے تیرے کوچے نے نقشِ مدعا پایا
۔۔۔
دوست دارِ دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم

آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا
۔۔۔
نے اسد جفا سائل، نے سمِ جنوں مائل 

تجھ کو جس قدر ڈھونڈا اُلفت آزما پایا
۔۔۔