جبیں کی دھول ، جگر کی جلن چھپائے گا
شروع عشق ہے وہ فطرتاً چھپائے گا
۔ ۔ ۔
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ تیرا پیرہن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
ترا علاج شفاگاہ عصر نو میں نہیں
خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
حصار ضبط ہے ابر رواں کی پرچھائیں
ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
نظر کا فرد عمل سے ہے سلسلہ درکار
یقیں نہ کر ، یہ سیاہی کفن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
ترا غبار زمیں پر اترنے والا ہے
کہاں تک اب یہ بگولا تھکن چھپائے گا
۔ ۔ ۔