جبیں کی دھول ، جگر کی جلن چھپائے گا
شروع عشق ہے وہ فطرتاً چھپائے گا
۔ ۔ ۔
دمک رہا ہے جو نس نس کی تشنگی سے بدن
اس آگ کو نہ تیرا پیرہن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
ترا علاج شفاگاہ عصر نو میں نہیں
خرد کے گھاؤ تو دیوانہ پن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
حصار ضبط ہے ابر رواں کی پرچھائیں
ملال روح کو کب تک بدن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
نظر کا فرد عمل سے ہے سلسلہ درکار
یقیں نہ کر ، یہ سیاہی کفن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
کسے خبر تھی کہ یہ دور خود غرض اک دن
جنوں سے قیمت دار و رسن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
ترا غبار زمیں پر اترنے والا ہے
کہاں تک اب یہ بگولا تھکن چھپائے گا
۔ ۔ ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔