حضرت شیخ سعدی شیرازی
سچا درویش
بیان کیا جاتا ہے کچھ اوباش ایک درویش کے درپے آزاد ہو گئے جب بھی ملتا وہ اس کی توہین کر تے اور آزار پہنچاتے۔ ایک دن تو انھوں نے حد ہی کر دی درویش کر خوب برا بھلا کہا اور پکڑ کر پیٹا۔ درویش ان اوباشوں کی اس حرکت سے بہت دل برداشت ہوا۔ وہ اسی وقت اپنے مرشد کے پاس پہنچا اور اسے سارا حال سنایا۔ مرشد نے کہا سن اے عزیز ! جو درویش دنیاوی تکلیفوں اور دنیا والوں کے برے سلوک سے بے حوصلہ ہوتا ہے اس کے جسم پر درویشوں کا لباس نہیں سجتا'' تکلیفوں پر صبر کر نا اور برائی کے بدلے بھلائی کر نا ہمارا دستور ہے۔
بڑے دریا میں کوئی پھینکے پتھر
کبھی گدلا نہ ہو گا اس کا پانی
نہیں آتے یونہی غصے میں درویش
یہ ہے ان پر خدا کی مہربانی
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں اپنی اصلاح اور معاشرے کی اصلاح کا وہ بہترین طریقہ بیان کیا ہے جو ابتدائے آفرینش سے رسولوں اور نبیوں کا دستور رہا ہے۔ یعنی غصے پر قابو پانا اور انتقام لینے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی دشمن کو معاف کر دینا۔ یہاں یہ بات بطور خاص سمجھنے کے قابل ہے کہ سعدیؒ جب لفظ درویش استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد مومن کامل ہوتی ہے تارک الدنیا خانقاہ نشین نہیں۔ یہ اسی لفظ کا بگڑا ہوا مفہوم ہے۔
٭٭٭
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔