کسی موسم ہوا سے دوستی آغاز کرتے
پرندے دشت کے سارے شجر ہمراز کرتے
۔ ۔ ۔
اک اوجِ شوق سے گر دیکھتے اِس شہرِ جاں کو
مناظر حیرتوں کے اور ہی در باز کرتے
۔ ۔ ۔
فروزاں تھے لہو میں درد کے مہتاب جتنے
سب اُس کے عکس تھے کس سے کسے ممتاز کرتے
۔ ۔ ۔
بجھا کر آفتاب اب اس کا ماتم کر رہے ہیں
گہن تو اک ذرا سا تھا نظر انداز کرتے
۔ ۔ ۔
یہیں ان وادیوں کی گونج بنتے گیت اپنے
انہی خاموش جذبوں کو جو ہم آواز کرتے
۔ ۔ ۔
کوئی تو سطر عالی کہکشاں صورت چمکتی
کہیں تو سحر کوئی پھونکتے اعجاز کرتے
۔ ۔ ۔