کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا
۔۔۔
ساغرِ جلوۂ سرشار ہے ہر ذرۂ خاک
شوقِ دیدار بلا آئنہ ساماں نکلا
۔۔۔
عشرت ایجاد چہ بوئے گل و کُو دودِ چراغ
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
۔۔۔
زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یا رب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پرافشاں نکلا
۔۔۔
کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں، لیکن آخر
جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا
۔۔۔
کس قدر خاک ہوا ہے دلِ مجنوں یا رب
نقشِ ہر ذرہ سویداۓ بیاباں نکلا
۔۔۔
دل میں پھر گریے نے اک شور اُٹھایا غالب
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا، سو طوفاں نکلا
۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔