غزل
ستارے بیخود و سرشار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
اندھیرے رو کشِ انوار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
مسائل زندگی کے جو کبھی سیدھے نہ ہوتے تھے
سراسر سہل اور ہموار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
اگرچہ محتسب بھی ان گنت تھے اس شبستان میں
مگر سب میکشوں کے یار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
جوانی محوِ آرائش تھی پوری خود نمائی سے
دو عالم آئنہ بردار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
گدازِ قربتِ اصنام سے دل پگھلے جاتے تھے
نفس صہبا ، بدن گلنار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
گماں ہوتا تھا شاید زندگی پھولوں کا گجرا ہے
گلوں کے اس قدر انبار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
عدم مت پوچھ کیا کیفیتیں تھیں ذہن پر طاری
نشاطِ روح کے معمار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔