غزل
مے نہیں قصرِ زندگانی ہے
روشنی ہے ، ہوا ہے ، پانی ہے
آج دل ڈوبنے سے ڈرتا ہے
دیکھ دریا میں کتنا پانی ہے
جو بھی کرنا ہے کر گزر اے دل
سوچنا مرگِ شادمانی ہے
ہم نے خود مسکرا کے دیکھا ہے
مسکراہٹ بھی نوحہ خوانی ہے
زندگی وہ ! جو ان کے ساتھ گئی
یہ تو میری حیاتِ ثانی ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔