ہفتہ، 10 جون، 2017

اب میں‌ شمعِ ‌آرزو کی لو بڑھا سکتا نہیں

معذوری

تلخیاں کلیات ساحر

خلوت و جلوت میں تم مجھ سے ملی ہو بارہا

تم نے کیا دیکھا نہیں، میں مسکرا سکتا نہیں

میں‌ کہ مایوسی مری فطرت میں داخل ہو چکی

جبر بھی خود پر کروں‌ تو گنگنا سکتا نہیں

مجھ میں کیا دیکھا کہ تم الفت کا دم بھرنے لگیں

میں تو خود اپنے بھی کوئی کام آ سکتا نہیں

روح افزا ہیں جنونِ عشق کے نغمے مگر

اب میں ان گائے ہوئے گیتوں کو گا سکتا نہیں

میں نے دیکھا ہے شکستِ سازِ الفت کا سماں

اب کسی تحریک پر بربط اٹھا سکتا نہیں

دِل تُمہاری شِدتِ اِحساس سے واقِف تو ہے

اَپنے اِحساسات سے دَامن چُھڑا سکتا نہیں

تُم مِری ہو کر بھی بیگانہ ہی پاؤ گی مجھے

میں تُمہارا ہو کے بھی تُم میں سما سکتا نہیں

گائے ہیں میں نے خلوصِ دل سے بھی الفت کے گیت

اب ریا کاری سے بھی چاہوں تو گا سکتا نہیں

کس طرح تم کو بنا لوں میں‌شریکِ زندگی

میں‌ تو اپنی زندگی کا بار اٹھا سکتا نہیں

یاس کی تاریکیوں میں‌ ڈوب جانے دو مجھے

اب میں‌ شمعِ ‌آرزو کی لو بڑھا سکتا نہیں

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔