حضرت شیخ سعدی شیرازی
بد آواز خطیب
بیان کیا جاتا ہے۔ ایک خطیب بہت بد آواز تھا اور مزے کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو بہت خوش آواز سمجھتا تھا، چنانچہ اپنی اس غلط فہمی کی بنا پر خوب چلا چلا کر خطبہ دیا کرتا تھا۔ لوگ اس کا چیخنا چلانا سن سن کر تنگ آ چکے تھے لیکن اس کو کچھ پروانہ تھی۔ وہ تو اپنی طرف سے بستی والوں پر احسان کرتا تھا۔
اتفاق سے ایک دن خطیب کے گھر ایک ایسا شخص مہمان بن کر آیا جو منھ پر تو اسے اچھا کہتا تھا لیکن در پردہ اس کا برا چاہتا تھا۔ اس مہمان کو خطیب کے حالات معلوم ہوئے تو ایک دن کہنے لگا، آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی آواز بہت اچھی ہو گئی ہے۔ آپ خطبہ دے رہے ہیں۔ اور سننے والے خوش ہو رہے ہیں۔ مہمان کی یہ بات سن کر خطیب نے اس پر غور کیا اور یہ بات اس کی سمجھ میں آ گئی کہ میر آواز بہت خراب ہے جس کی وجہ سے بستی کے لوگ پریشانی محسوس کرتے ہیں۔ اس نے اپنے دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ آیندہ کبھی اونچی آواز میں خطبہ نہ دوں گا اور یوں بستی والوں کی پریشانی کا خاتمہ ہو گیا۔
جس قدر بھی ممکن ہے تو خوشامدی سے بچ
یہ خوشامدی پٹھودوست ہے نہ بھائی ہے
حق دوستی یہ ہے عیب سے کرے آگاہ
عیب کو ہنر کہنا سخت بے وفائی ہے۔
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے عیوب اور اپنی خوبیوں کا بالکل درست اندازہ کر لینا انسان کی بہت بڑی سعادت ہے ایسا شخص دشمن کی ایسی بات سے بھی اچھا نتیجہ اخذکر لیتا ہے جوا س کا دل دکھانے کے لیے کہی گئی ہو۔
٭٭٭
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔