حضرت شیخ سعدی شیرازی
کمزوروں پر ظلم
بیان کیا جاتا ہے۔ کہ ایک بے رحم شخص، جسے خدا نے قوت اور اختیار دے دکھا تھا، غریبوں سے وہ لکڑیاں چھین کر جو وہ جلانے کے لیے لاتے تھے۔ امیروں کے ہاتھ فروخت کر دیا کرتا تھا۔ غریب اس کی زیادتی پر بہت واویلا کرتے تھے لیکن وہ پروانہ کرتا تھا۔
اسے یہ ظلم کرتے دیکھا تو ایک دن اس کے ایک دوست نے اس سے کہا کہ تجھے چاہیے کہ غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ یہ ظلم نہ کرے۔ لیکن اس نے اپنی اس دوست کی نصیحت پر کان نہ دھرا۔ بدستور اپنے دھند ے میں لگا رہا ایک دن اس کے گھر اچانک آگ اٹھی اور چشم زدن میں اس کا سارا گھر جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے سامنے بیٹھا آہ و بکا کر رہا تھا کہ اتفاق سے اس کا وہی شناسا ادھر سے گزرا جس نے اسے غریبوں کو نہ ستانے کی نصیحت کی تھی۔ اس نے اپنے اس دوست کو دیکھا تو کہنے لگا، معلوم نہیں میرا گھر کس طرح جل گیا ؟ اس نے فورا جواب دیا۔ یہ غریبوں کی آہوں کے دھوئیں سے جل گیا ہے کیا میں نے تجھے منع نہیں کیا تھا کہ غریبوں کو ستا کر ان کی بد دعائیں نہ لے۔
اس دھوئیں سے بچ جو اٹھتا ہے دل مجروح سے
دل سے اٹھے یہ دھواں تو رنگ لاتا ہے ضرور
اس نصیحت کو نہ مانے گا تو آخر ایک دن
ہو گا رسوا، خاک میں مل جائے گا تیرا غرور
وضاحت
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ غریبوں اور کمزوروں کو ستانا جس قدر آسان نظر آتا ہے۔ اس گناہ کی پاداش سے بچنا اتنا ہی مشکل ہے۔ اے شکستہ دل لوگ جب دنیاوی سہاروں سے مایوس ہو کر آنسو بھری آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ان کی یہ دعا قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔
٭٭٭

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔