وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
۔ ۔ ۔
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
۔ ۔ ۔
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
۔ ۔ ۔
دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب
جس کی ڈھالیں چمک رہیں تھیں وہی نشانہ ہے
۔ ۔ ۔
کاسہ شام میں سورج کا سر اور آواز ِ اذان
اور آواز اذان کہتی ہے فرض نبھانا ہے
۔ ۔ ۔
سب کہتے ہیں اور کوئی دن یہ ہنگامہ دہر
دل کہتا ہے ایک مسافر اور بھی آنا ہے
۔ ۔ ۔
ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر
سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے
۔ ۔ ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔