حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارماں رہ گیا
دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا
۔ ۔ ۔
دوستی نبھتی نہیں ہرگز فرو مایہ کے ساتھ
روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا
۔ ۔ ۔
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے یقین ، یاں رہ گیا، واں رہ گیا
۔ ۔ ۔
کر کے آرایش، جو دیکھی اُس صنم نے اپنی شکل
بند آنکھیں ہو گئیں، آئینہ حیراں رہ گیا
۔ ۔ ۔
کھینچ کر تلوار قاتل نے کیا مجھ کو نہ قتل
شکر ہے گردن تک آتے آتے احساں رہ گیا
۔ ۔ ۔
شامِ ہجراں صبح بھی کر کے نہ دیکھا روزِ وصل
سانپ کو کچلا پر آتش ، گنج پنہاں رہ گیا
۔ ۔ ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔