وصل ہو جائے یہیں، حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے
پارسائی کا لہو اس میں بھرا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نکلے
میرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھیں
آپ تو سوتے ہیں، فتنوں کو جگا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
آدمی زاد ہیں دنیا کے حسیں ،لیکن امیر
یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے
۔ ۔ ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔