چاندی رات میں ہوا کا جھونکا ٹکرایا چوباروں سے
چند شکستہ زینوں سے اور کچھ گرتی دیواروں سے
۔۔۔
آؤ کھلی محراب کے نیچے بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں
دل کو وحشت سی ہوتی ہے گھٹے گھٹے بازاروں سے
۔۔۔
میں نے اپنا کمرہ نچلی منزل پر تبدیل کیا
ہوٹل کی کھڑکی اونچی تھی ،مسجد کے میناروں سے
۔۔۔
رات نمائش گاہ میں گملے بھی موجود تھے پھولوں کے
تازہ خون کی بو آتی تھی لیکن کچھ فن پاروں سے
۔۔۔
ان پہ کبوتر سر نیوڑھائے بیٹھے ہیں خاموش ملول
کل اس شہر کی رونق تھی جن مرمر کے فواروں سے
۔۔۔
ایسی قیامت کی سردی میں چاند سے باتیں کون کرے
آؤ ہم اپنی رات گذاریں لفظوں کے انگاروں سے
۔۔۔
اعتبار ساجد
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔