منگل، 13 جون، 2017

بدمست شرابی

بد مست شرابی از شیخ سعدی
حضرت شیخ سعدی شیرازی

بد مست شرابی

بیان کیا جاتا ہے۔ ایک مرد دانا کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک جگہ ایک شرابی کو دیکھا جو زمیں پر بے سدھ پڑا تھا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر وہ شخص بہت متاسف ہوا اور اس کے قریب رُک کر اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا

اِتفاق سے اس وقت وہ بد مست بھی کسی قدر ہوش میں آیا۔ ایک شخص کو اپنی طرف نفرت سے دیکھتے پایا تو بولا (جب وہ کسی ایسے مقام سے گزرتے ہیں جہاں بے ہودگی کی کوئی بات ہو تو دامن بچا کر شائستگی سے گزر جاتے ہیں)

تو جو اچھا ہے تو نفرت سے نہ دیکھ ان کو 

کبھی اپنی جانوں پہ کیا کرتے ہیں جو ظلم مدام

فرض تو یہ ہے کہ ایسوں کی کرے کچھ امداد

یہ نہ ممکن ہو تو کر دور سے ان کو سلام

وضاحت

حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں معاشرے کی اصلاح اور بری عادتوں میں مبتلا لوگوں کو راہ راست پر لانے کا بہت ہی گہرا اصول بتایا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی برائی میں گرفتار نظر آئے تو اس طبیب کی طرح جو مریض سے نہیں ایسے لوگوں کو برا بھلا کہتا اور لعن طعن کرتا جو انھیں برائیوں میں اور پختہ کر دیتا ہے اس کے مقابلے میں حسن سلوک ان پر شرمندگی کی کیفیت طاری کر دیتا ہے جو اپنی حالت کو اچھا بنانے کے عزم کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

٭٭٭

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔